1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا میں مظاہرے تیسرے روز بھی جاری

عاطف بلوچ6 دسمبر 2014

سفید فام پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں سیام فام باشندوں کی ہلاکت پر ہزاروں افراد نیو یارک سمیت دیگر بڑے شہروں میں اپنے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ادھر انسانی حقوق کے کارکنان نے اس تناظر میں تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1E05F
تصویر: Reuters//Elizabeth Shafiroff

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے نیو یارک سے موصولہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی محکمہ انصاف سے خائف ہزاروں افراد نے جمعے کی رات بھی اپنے مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسی طرح میامی، شکاگو، بوسٹن، نیو اورلین اور دارالحکومت واشنگٹن بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسے حالیہ واقعات پر سراپا احتجاج ہے، جن میں سفید فام پولیس اہلکاروں نے چار مختلف واقعات میں نہتے سیاہ فام امریکی شہریوں کو مبینہ طور پر ہلاک کر دیا ہے۔

تازہ احتجاج کا تازہ سلسلہ ایک ایسے وقت میں شروع ہوا ہے، جب آکائی گیرولی نامی ایک اور سیاہ فام کی ہلاکت کے حوالے سے حقائق جاننے کے لیے نیو یارک کی گرینڈ جیوری ترتیب دی جانے والی ہے۔ یاد رہے کہ بروکلین میں ایک سفید فام پولیس اہلکار نے گزشتہ ماہ بیس نومبر کو غلط فہمی کا شکار ہوتے ہوئے اٹھائیس سالہ گیرولی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

بروکلین ڈسٹرکٹ اٹارنی کین تھامسن نے یقین دلایا ہے کہ وہ گرینڈ جیوری کو تمام تر ضروری شواہد فراہم کریں گے تاکہ وہ یہ فیصلہ کر سکے کہ آیا، گیرولی پر فائر کرنے والے پولیس اہلکار پر فرد جرم عائد کی جانا چاہیے۔ انہوں نے عہد کیا کہ اس تناظر میں جامع اور شفاف تحقیقات کی جائیں گی۔

USA Proteste gegen Polizeigewalt in New York Demonstranten 05.12.2014
ان مظاہروں کی وجہ سے متعدد شہروں میں ٹریفک کا نظام بھی متاثر ہوا ہےتصویر: Reuters/Elizabeth Shafiroff

دوسری طرف نیو یارک پولیس کے کمشنر ولیم بریٹن نے گیرولی کی ہلاکت کو ایک حادثہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مکمل طور پر معصوم تھا۔ گیرولی کی تدفین آج ہفتے کے دن کی جا رہی ہے۔ دریں اثناء فينِکس ميں بھی منگل کے دن ايک پوليس اہلکار نے رومين برسبون نامی ايک غير مسلح سياہ فام کو گولی مار کر ہلاک کر ديا ہے۔ حکام کے مطابق متعلقہ افسر کو شبہ تھا کہ چونتيس سالہ برسبون کے پاس پستول تھا۔

یہ امر اہم ہے کہ مظاہرین نو اگست کو میسوری ریاست کے شہر سینٹ لُوئیس کی نواحی بستی فرگوسن میں اٹھارہ سالہ مائیکل براؤن اور سترہ جولائی کو نیو یارک میں ایرک گارنر کی ہلاکت کے لیے پولیس اہلکاروں کو ذمہ دار قرار دے رہیں۔ تاہم دونوں کیسوں میں گرینڈ جیوریز نے سفید فام پولیس اہلکاروں کو ان سیاہ فاموں کی ہلاکت کے الزامات سے بری کر دیا ہے۔ مظاہروں کے بعد وفاقی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر نے کہا ہے کہ ایرک گارنر کی ہلاکت کے حوالے سے وفاقی سطح پر تفتیش کی جائے گی۔

ادھر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے مائیکل براؤن اور ایرک گارنر کی ہلاکتوں پر گرینڈ جیوری کی طرف سے پولیس اہلکاروں پر فرد جرم عائد نہ کرنے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اقلیتی امور پر اقوام متحدہ کی خصوصی مندوب ریٹا ازسک نے جمعے کے دن صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حاصل اختیارات پر نظر ثانی کی ضرورت بھی ہے۔