1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا یورپ فری ٹریڈ زون کی تیاریاں

امجد علی8 جولائی 2013

آج سے واشنگٹن میں امریکا اور یورپی یونین کے درمیان وہ مذاکرات شروع ہو رہے ہیں، جن کا مقصد اگلے سال کے اواخر تک ایک فری ٹریڈ زون کا معاہدہ طے کرنا ہے۔ اپنے 800 ملین شہریوں کے ساتھ یہ دنیا کا سب سے بڑا اقتصادی زون ہو گا۔

https://p.dw.com/p/193sb
تصویر: Getty Images

 یہ مذاکرات تقریباً دو سال کی تیاری کے بعد عمل میں آ رہے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے تجارت کے شعبے کے امریکی نمائندے مائیک فرومین نے کہا، ’ہم جہاں تک ممکن ہو، ایک وسیع البنیاد اور جامع سمجھوتہ طے کرنے کے نصب العین کے ساتھ ان مذاکرات میں جا رہے ہیں‘۔ ان مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت ڈین ملینی جبکہ یورپی یونین کے وفد کی قیادت اِگناسیو گارسیا برسیرو کر رہے ہیں۔

تاہم امریکی کمپیوٹر ماہر اور سابق انٹیلیجنس کنٹرکیٹر ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے منظر عام پر لائی جانے والی یہ تفصیلات ان مذاکرات پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں کہ امریکا اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے فون اور انٹرنیٹ ڈیٹا کی جاسوسی کرتا رہا ہے۔ انہی انکشافات کے باعث فرانس نے فری ٹریڈ زون کے ابتدائی مذاکرات میں دو ہفتے کی تاخیر کی تجویز دی تھی اور فرانسیسی موقف میں نرمی کے بعد ہی اب بالآخر یہ مذاکرات شروع ہو رہے ہیں۔

امریکا یہ چاہے گا کہ یورپی یونین میں جینیاتی طور پر تبدیل شُدہ فصلوں پر لگی اُن پابندیوں میں کمی ہو، جنہوں نے امریکی کاشتکاروں کو کئی برسوں سے پریشان کر رکھا ہے
امریکا یہ چاہے گا کہ یورپی یونین میں جینیاتی طور پر تبدیل شُدہ فصلوں پر لگی اُن پابندیوں میں کمی ہو، جنہوں نے امریکی کاشتکاروں کو کئی برسوں سے پریشان کر رکھا ہےتصویر: www.transgen.de

جون کے وسط میں یورپی یونین کے رکن ملکوں کے درمیان گیارہ گھنٹے کے بحث مباحثے کے بعد ان مذاکرات کے ایجنڈے پر اتفاق رائے ہو گیا تھا۔ تب اس اتفاق رائے کا اعلان کرتے ہوئے آئر لینڈ کے وزیر اقتصادیات رچرڈ برٹن نے کہا تھا:’’مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ یہ زون امریکا اور یورپی یونین دونوں کے فائدے میں ہے اور مجھے خوشی ہے کہ ہم اس سلسلے میں ایک سمجھوتے پر پہنچ گئے ہیں۔‘‘

امریکا اور یورپی یونین پہلے ہی تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں ایک دوسرے کے چوٹی کے ساتھی ہیں اور گزشتہ سال دو طرفہ تجارت کا حجم 646 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا۔

مجوزہ ٹریڈ زون اپنی نوعیت کا سب سے بڑا زون ہو گا، جو دنیا کی مجموعی اقتصادی پیداوار کے 50 فیصد، مجموعی عالمی تجارت کے 30 فیصد اور عالمی سطح پر براہ راست سرمایہ کاری کے 20 فیصد کا احاطہ کرے گا۔ لندن میں قائم سینٹر فار اکنامک پالیسی ریسرچ کے اندازوں کے مطابق اس زون کے نتیجے میں امریکا اور یورپ کی اقتصادی ترقی میں ایک سو ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ کا اضافہ ہو گا۔

واشنگٹن میں آج سے شروع ہونے والے مذاکرات میں زرعی منڈی سے لے کر الیکٹرانک کاروبار اور سرمایہ کاری سے لے کر مسابقت کی پالیسیوں تک مجموعی طور پر پندرہ مختلف گروپوں کے حوالے سے بات چیت ہو گی تاہم فرانس کی تجویز پر اس ایجنڈے میں ٹیلی وژن، فلم، موسیقی اور دیگر ذرائع ابلاغ کو شامل نہیں کیا گیا۔ اس کامیابی کے باوجود تب فرانس کی خاتون وزیر تجارت نکول بریک نے کہا تھا:’’مَیں یہ نہیں کہوں گی کہ ہمیں فتح حاصل ہوئی ہے۔ میں یورپی یک جہتی کی بات کر رہی ہوں۔ افسوس، میرا تاثر یہ ہے کہ ہم میں سے کچھ ممالک براہ راست بھی امریکا کے ساتھ بات چیت کر لیتے ہیں۔‘‘

یورپی یونین کا بڑا مطالبہ یہ ہو گا کہ امریکا کے سرکاری منصوبوں میں ’بائی امیریکن‘ یا ’امریکی مصنوعات ہی خریدو‘ کے اصول سے استثنیٰ حاصل کیا جائے۔ دوسری طرف امریکا یہ چاہے گا کہ یورپی یونین میں جینیاتی طور پر تبدیل شُدہ فصلوں پر لگی اُن پابندیوں میں کمی ہو، جنہوں نے امریکی کاشتکاروں کو کئی برسوں سے پریشان کر رکھا ہے۔ دونوں فریق زراعت اور کاروں سے لے کر کیمیاوی مادوں اور ادویات تک ایک دوسرے کی جانب سے لگائی گئی رکاوٹوں کو کم یا ختم کرنا چاہیں گے۔

دونوں فریق موٹر گاڑیوں کے شعبے میں بھی ایک دوسرے کی جانب سے لگائی گئی رکاوٹوں کو کم یا ختم کرنا چاہیں گے
دونوں فریق موٹر گاڑیوں کے شعبے میں بھی ایک دوسرے کی جانب سے لگائی گئی رکاوٹوں کو کم یا ختم کرنا چاہیں گےتصویر: AP

امریکا اور یورپی یونین کے درمیان فری ٹریڈ معاہدے کی تجویز یورپی یونین کے سابق کمشنر برائے تجارت لیون برٹین نے 1995ء ہی میں دے دی تھی تاہم چین کی ہوش رُبا ترقی، عالمی تجارتی مذاکرات کے تعطل اور عالمگیر مالیاتی بحران کی وجہ سے پیدا ہونے والی افراتفری کے بعد کہیں جا کر اس شعبے میں پیش رفت ہو پائی ہے۔

تاہم تجارتی امور کے بہت سے ماہرین کے خیال میں امریکا اور یورپ کے مابین یہ مذاکرات بہت پیچیدہ اور صبر آزما بھی ثابت ہو سکتے ہیں اور ان کا سلسلہ 2015ء تک بھی جاری رہ سکتا ہے۔

گوگل اور فیس بُک جیسی امریکی کمپنیوں کی خواہش ہو گی کہ امریکی مذاکراتی وفد یورپی یونین کے پرائیویسی اور ڈیٹا تحفظ کے اُن ضوابط پر بھی بات کرے، جن کی وجہ سے کلاؤڈ کمپیوٹنگ، سوشل میڈیا، موبائیل ایپس یا انٹرنیٹ کی دیگر خدمات کے سلسلے میں امریکی کمپنیاں گھاٹے میں رہتی ہیں۔ تاہم اس مقصد کا حصول امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی جانب سے جاسوسی کے انکشافات کے بعد سے مشکل تر ہو گیا ہے۔