1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی جنگ اسلام سے نہیں دہشت گردوں سے ہے، اوباما

مقبول ملک19 فروری 2015

صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ امریکا نہ تو اسلام کے خلاف ہے اور نہ ہی اس کی جنگ اسلام یا عام مسلمانوں کے خلاف ہے، بلکہ جنگی نشانہ وہ عناصر ہیں جنہوں نے اسلام کو بدنام کیا ہے اور اس کے پیغام کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1EeZo
عسکریت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے جنگجوتصویر: picture alliance/AP Photo

باراک اوباما نے بدھ کے روز امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف ایک کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر کے مسلم رہنماؤں کو اسلام کے بارے میں پائی جانے والی موجودہ غلط فہمیاں دور کرنے کی بھرپور اور نتیجہ خیز کوششیں کرنی چاہییں۔

انہوں نے کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ اسلامک اسٹیٹ جیسے دہشت گرد گروہ ’دانستہ طور پر توڑ مروڑ کر پیش کی گئی‘ اسلام کی جس نظریاتی اساس کی بات کرتے ہیں، عالمی رہنماؤں کو اس ’تبدیل کر دی گئی آئیڈیالوجی‘ کو مسترد کرتے ہوئے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ ایسے شدت پسند گروپ مسلمان برادری کی عمومی اور اکثریتی نمائندگی نہیں کرتے۔

Irak - IS Führer Abu Bakr al-Baghdadi
دولت اسلامیہ کا سربراہ ابوبکر البغدادیتصویر: picture-alliance/AP Photo

باراک اوباما نے کہا، ’’ایسے انتہا پسند رہنما خود کو مذہبی قائدین اور پارسا جہادیوں کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ لیکن وہ دہشت گرد ہیں اور دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتے۔ وہ مذہبی رہنما نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں۔‘‘

نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق امریکی صدر نے زور دے کر کہا کہ یہ امریکا اور دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں رہنے والے تمام مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اس غلط فہمی کا ازالہ کریں کہ دولت اسلامیہ جیسی دہشت گرد تنظیمیں ان کی ترجمان ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ اسلام اور دہشت گردی کے درمیان کسی بھی ممکنہ تعلق کے بارے میں صدر باراک اوباما کا یہ آج تک دیا جانے والا سب سے واضح اور براہ راست بیان ہے۔

امریکی حکومت گزشتہ کئی ہفتوں سے اس بارے میں کچھ بھی کہنے سے احتراز کرتی رہی ہے کہ آیا پیرس اور دیگر مغربی شہروں میں کیے جانے والے دہشت گردانہ حملوں کی حالیہ لہر ’اسلامی انتہا پسندی‘ کا نتیجہ قرار دی جانی چاہیے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اوباما انتظامیہ ایک بڑے عالمی مذہب کے پیروکاروں کے طور پر عام مسلمانوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتی اور نہ ہی وہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں اپنے قابل اعتماد ہونے کو کھونا چاہتی ہے جو اوباما کے پیش رو صدر جارج ڈبلیو بش نے شروع کی تھی۔

اس پس منظر میں واشنگٹن میں امریکی صدر کی میزبانی میں ان کی سرکاری رہائش گاہ وائٹ ہاؤس میں خونریز انتہا پسندی کے مقابلے کے موضوع پر جس اعلٰی سطحی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا، اس سے خطاب کرتے ہوئے باراک اوباما نے کہا کہ چند مسلم برادریوں میں کچھ لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اسلام برداشت اور جدید طرز زندگی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اوباما نے اس کانفرنس کے مندوبین کو بتایا، ’’ہماری جنگ اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ ہماری جنگ ان لوگوں کے خلاف ہے، جنہوں نے اسلام کو خراب کیا ہے۔‘‘

Boko Haram Kämpfer
نائجیریا میں دہشت گرد تنظیم بوکو حرام کے مسلح عسکریت پسندتصویر: picture alliance/AP Photo

باراک اوباما نے اپنی تقریر میں مزید کہا، ’’جس طرح میں خود اور دیگر رہنما اس خیال کو رد کرتے ہیں کہ اسلامک اسٹیٹ اسلام کی حقیقی نمائندہ تنظیم ہے، اسی طرح مسلمان رہنماؤں کو بھی اس تصور کو رد کرنا چاہیے کہ ہماری )مغربی( قومیں اسلام کو نیچا دکھانے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔‘‘

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اس موضوع پر آج جمعرات کے روز اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ ماضی میں صدر اوباما اور ان کے مشیر دہشت گردی اور شدت پسند مسلمانوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے اپنے الفاظ کے انتخاب میں احتیاط پسندی سے کام لیتے تھے۔ مثلاﹰ ’مسلم انتہا پسندی‘ کی بجائے ’خونریز انتہا پسندی‘ کی اصطلاح کو ترجیح دی جاتی تھی۔ لیکن اب باراک اوباما نے اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کے خاتمے کے لیے خود مسلمان رہنماؤں پر عائد ہونے والی ذمے داریوں کے سلسلے میں انہیں جو براہ راست چیلنج دیا ہے، وہ اوباما ہی کے ماضی کی محتاط لفاظی والے طرز اظہار سے وا‌ضح دوری کا ثبوت ہے۔