1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی وزیر دفاع کے بعد خصوصی سفیر بھی احتجاجاً مستعفی

23 دسمبر 2018

شام سے امریکی افواج کی واپسی کے اعلان پرایک اور اعلیٰ امریکی اہلکار نے احتجاجاﹰ استعفیٰ دے دیا ہے۔ قبل ازیں اس پالیسی پر اختلاف کرتے ہوئے وزیر دفاع جیمز میٹس بھی مستعفی ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3AYrn
USA Brett McGurk
تصویر: picture-alliance/AA/Y. Ozturk

جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف قائم عالمی اتحاد کے امریکی سفیر بریٹ مک گرُوک نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے شام سے فوج بلانے کے فیصلے پر احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ہے۔ امریکی سفیر کے مطابق امریکی صدر کا اعلان انتہائی پریشان کن ہے۔ اس سے قبل وزیر دفاع جیمز میٹس بھی ٹرمپ انتظامیہ سے اسی بنیاد پر علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔ 

مک گرُوک نے اپنا استعفیٰ پیش کرتے ہوئے کہا کہ شام سے امریکی فوج کی واپسی کا فیصلہ انتہائی حیران کُن ہے اور اِس نے اتحادیوں کو پریشان کرنے کے علاوہ وہاں جنگی حالات کا سامنا کرنے والے عسکری گروپوں کو بھی ادھورے راستے پر چھوڑ دیا ہے۔ چند روز قبل بریٹ مک گرُوک نے کہا تھا کہ شام سے امریکی فوج کی واپسی کا کوئی بھی فیصلہ انتہائی لاپرواہی ہو گا۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو لکھے گئے خط میں مستعفی ہونے والے سفیر نے بیان کیا کہ شام میں شدت پسندوں نے راہِ فرار اختیار کر رکھی ہے اور انہیں ابھی تک شکست سے دوچار نہیں کیا گیا۔ اس خط میں مک گروک نے مزید تحریر کیا کہ شام سے امریکی فوج کا انخلاء قبل از وقت ہے اور اس باعث داعش اپنی بکھری قوت کو دوبارہ اکھٹی کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔

USA Präsident Trump spricht vor Anhängern über die Berufung von Kavanaugh an den Obersten Gerichtshof
صدر ٹرمپ نے شام سے اپنی فوج کی واپسی کا ایک مرتبہ پھر دفاع کرتے ہوئے اسے ایک درست فیصلہ قرار دیاتصویر: Reuters/Y. Gripas

امریکی صدر نے خصوصی سفیر کے مستعفی ہونے کو کوئی وقعت نہیں دی اور کہا کہ وہ پہلے ہی اس منصب کو چھوڑنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں بریٹ مک گروک کو مجموعی صورت حال کے ایک تماشائی سے بھی تعبیر کیا۔ سفیر کے استعفے کی خبر عام ہونے کے بعد صدر ٹرمپ نے شام سے اپنی فوج کی واپسی کا ایک مرتبہ پھر دفاع کرتے ہوئے اسے ایک درست فیصلہ قرار دیا۔

مک گروک نے اپنے مستعفی ہونے کا خط جمعہ اکیس دسمبر کو تحریر کیا تھا۔ وہ اپنے منصب کو اگلے برس وسط فروری میں چھوڑنے کا فیصلہ پہلے ہی کر چکے تھے۔ اُن کو سابق امریکی صدر باراک اوباما نے سن 2015 میں یہ ذمہ داری سونپی تھی۔