1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی پابندیوں نے ’کمر توڑ‘ کر رکھ دی، ایرانی شہری

24 جون 2019

امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف سخت ترین پابندیوں نے ایک عام ایرانی شہری کی زندگی کو شدید متاثر کیا ہے۔ ایرانی شہریوں کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں نے ان کی ’کمر توڑ‘ کر رکھ دی ہے۔

https://p.dw.com/p/3L0Mz
Iran Proteste - Bild nicht verifziert
تصویر: Radio Farda

ان پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے اقتصادی دباؤ نے اسی ملین آبادی کے ملک ایران میں کسی سب وے میں فن کا مظاہرہ کرنے اور بدلے میں لوگوں کی جانب سے سکوں کی صورت انعام پانے والے فن کار سے لے کر دلہنوں کے خالی پرس تک، ہر شخص کو متاثر کیا ہے۔

ایران کے خلاف عالمی اتحاد کے لیے کوشاں ہیں، پومپیو

امریکی ڈرون کی فضائی خلاف ورزی سے کشیدگی بڑھی ہے، روحانی

بہت سے ایرانی شہری اس کا الزام صدر ٹرمپ اور ان کی ایران کے خلاف سخت پالیسیوں کو قرار دیتے ہیں۔ 2015ء میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے کے بعد حالات رفتہ رفتہ بہتری کی طرف بڑھ رہے تھے، تاہم گزشتہ برس ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے اخراج کا اعلان کر کے ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں نافذ کر دیں۔

حالیہ کچھ عرصے میں ایران کی جانب سے کئی بار یورپی طاقتوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ جوہری ڈیل بچانے کے لیے ایران کو مراعات دیں۔ تہران امریکی صدر کے اقدام کو 'ایران کے خلاف اقتصادی جنگ‘ قرار دیتا ہے۔ حال ہی میں ایران کی جانب سے امریکی ڈرون طیارہ مار گرانے کے واقعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایران خطے میں موجود امریکی فورسز سے کسی بھی محاذ آرائی کے لیے تیار ہے۔

دوسری جانب اس واقعے کے بعد امریکا نے ایران کے خلاف مزید سخت پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم فقط ٹرمپ ہی نہیں کئی ایرانی شہری بھی اقتصادی ابتری کا الزام تہران حکومت پر عائد کرتے ہیں۔

بائس سالہ شیوا کشوراز کا کہنا ہے، ''اقتصادی جنگ ایک حقیقت ہے اور اس سے عوام شدید دباؤ کا شکار ہوئے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ایرانی رہنما عوام کو بتا رہے ہیں کہ وہ مضبوط رہیں تاکہ دباؤ برداشت کیا جا سکے، مگر ہمیں اپنی'ہڈیاں ٹوٹتی محسوس ہو رہی ہیں۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ جوہری ڈیل کے وقت ایک امریکی ڈالر 32 ہزار ایرانی ریال کے برابر تھا، تاہم اس وقت ایک ڈالر کے مقابلے میں ایرانی ریال کی قدر کم ہو کر ایک لاکھ تیس ہزار تک پہنچ چکی ہے، جب کہ افراطِ زر کی شرح 27 فیصد اور بے روزگاری کی شرح 12 فیصد تک جا پہنچی ہے۔

ع ت، ب ج (اے ایف پی، اے پی)