1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'امہ امہ کی رٹ لگانا بند کرنا چاہیے‘

عبدالستار، اسلام آباد
6 فروری 2020

سعودی عرب کی طرف سے کشمیر کے مسئلے پر اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے وزراء خارجہ کی کونسل کا  فوری طور پر اجلاس بلانے کی مخالفت پر پاکستان میں کئی حلقوں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3XMZE
Trump Mideast Plan Muslim Nations
تصویر: picture-alliance/AP Photo

روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق ریاض اس بات کا خواہاں نہیں ہے کہ کشمیر کے مسئلہ پر او آئی سے کے وزراء خارجہ کا اجلاس بلایا جائے بلکہ وہ پاکستان کی خواہش کے برعکس اس حوالے سے دوسری تجاویز دیتا رہا ہے۔ وزراء  کونسل کے اجلاس کی تیاریاں جاری ہیں، جو جدہ میں نو فروری کو ہوگا۔ تاہم اس بات کا امکان نہیں کہ اس کونسل کا کوئی سیشن بھارت کے زیر انتظام کشمیر پر بھی ہو، جس کا پاکستان مطالبہ کرتا رہا ہے۔

Saudi-Arabien Mekka Gipfel islamischer Staaten
تصویر: AFP/Saudi Royal Palace/B. Al-Jaloud

بین الاقوامی امور کے ماہرین نے اس سعودی رویے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ریاض سے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الااقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت اے وزارت نے اس مسئلہ پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "وقت آ گیا ہے کہ ہم ریاض سے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کریں کیونکہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بہت زیادہ بھارتی اثر و رسوخ میں ہیں اور وہ پاکستان کی حمایت نہیں کرنا چاہتے۔ پاکستان کو ان ممالک کی قدر کرنا چاہیے جو ہمارے لیے نقصان اٹھاتے ہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ ملائیشیا نے بھارت سے تعلقات خراب کر کے معاشی نقصان اٹھایا،''لیکن وہ کشمیر سے اپنے موقف پر نہیں ہٹے۔ بھارت نے ان سے تیل لینا بند کیا لیکن پھر بھی انہوں نے پاکستان کی مدد کی۔ اسی طرح ترکی نے بھی ہمارے موقف کی تائید کی۔ اور ہم ہیں کہ ہم نے سعودی عرب کے کہنے پر کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہیں کی اور اس کا صلہ ہمیں یہ ملا۔ اب ہمیں ترکی اور ملائیشیا کے ساتھ مل کر ایک نئی اسلامی تنظیم بنانی چاہیے، جو او آئی سی کی طرح غیر متحرک اور ناکارہ نہ ہو۔‘‘

USA Pakistan Premierminister Imran Khan UN | Präsident Erdogan
تصویر: Press Information Department Pakistan/I. Masood

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ سرد جنگ کی سیاست کے بر عکس اب مذہب سعودی پالیسی میں بہت اہم ہے اور اب اسے مسلم امہ کا کوئی خیال بھی نہیں۔ اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ادارہ برائے عالمی استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکر نجم الدین کہتے ہیں کہ یہ سعودی موقف ان کی بدلتی ہوئی ترجیحات کا عکاس ہے''سعودی عرب اب اسرائیل سے تعلقات بہتر کر رہا ہے اور خالصتاً معاشی مفادات کی بنیاد پر اپنے تعلقات دیگر  ممالک سے استوار کر رہا ہے۔ بھارت سے بھی اس کے معاشی مفادات کی بنیاد پر تعلقات بن رہے ہیں۔ اس سعودی موقف سے پاکستان کو بہت مایوسی ہوئی ہے اور پاکستان کو اصولی طور پر چاہیے کہ وہ ترکی اور ملائشیا کی طرف سے نئی اسلامی تنظیم کی کوششوں کا ساتھ دے لیکن عملا ایسا بہت مشکل ہے کیونکہ پاکستان اپنی معیشت کی وجہ سے ریاض پر بہت انحصار کرتا ہے، جو اسے ادھار تیل دیتا ہے اور وہاں پر لاکھوں پاکستانی کام کرتے ہیں۔"

سیاست دان بھی اس موقف پر مایوس ہیں اور حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر محمد اکرم بلوچ کہتے ہیں،'' ہمیں بھی حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ کہاں کی مسلم امہ اور کہاں کا اسلامی بلاک۔ سعودی عرب اسرائیل سے تعلقات استوار کر رہا ہے اور یہاں ہم امہ امہ کی رٹ لگا رہے ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں بھی اپنے قومی مفادات کو دیکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کو بدلنا چاہیے اور سعودی اثر ورسوخ سے نکلنا چاہیے۔‘‘

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں