1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امیگریشن پابندیاں: ’نام نہاد جج کا فیصلہ مضحکہ خیز ہے‘، ٹرمپ

مقبول ملک
4 فروری 2017

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ سیاٹل کی ایک وفاقی عدالت کے ’نام نہاد جج‘ کا امیگریشن پابندیوں سے متعلق جمعہ تین فروری کو سنایا گیا فیصلہ ’مضحکہ خیز‘ ہے، جسے منسوخ کروا کے یہ پابندیاں بحال کرائی جائیں گی۔

https://p.dw.com/p/2WyrQ
Donald Trump
ٹرمپ نے کہا، ’’ہمارے ملک سے قانون نافذ کرنے کا حق چھین لیا گیا ہے‘‘تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. M. Monsivais

امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے ہفتہ چار فروری کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق کل جمعے کی رات ریاست واشنگٹن میں سیاٹل کی ایک وفاقی عدالت کے جج نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے ستائیس جنوری سے امریکا میں مہاجرین اور سات مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں کی آمد پر تین ماہ کے لیے لگائی گئی پابندی کو معطل کرتے ہوئے پورے امریکا میں اس پر جو عمل درآمد روک دیا تھا، اس ہر آج ہفتے کی صبح صدر ٹرمپ کی طرف سے شدید برہمی کا اظہار کیا گیا۔

USA Trumps Einreiseverbot gestoppt - Generalstaatsanwalt Ferguson
سیاٹل کی وفاقی عدالت میں مقدمہ ریاست واشنگٹن نے دائر کیا تھا، تصویر میں واشنگٹن اسٹیٹ کے اٹارنی جنرل باب فرگوسنتصویر: Getty Images/K. Ducey

سیاٹل کی وفاقی عدالت کے جج کے فیصلے پر اپنے رد عمل میں ٹرمپ نے کہا کہ ان کی قیادت میں امریکی انتظامیہ اس ’نام نہاد جج‘ کے حکم کو منسوخ کرواتے ہوئے دوبارہ وہی امیگریشن پابندیاں بحال کر دے گی، جو اس جج نے عبوری طور پر معطل کر دی ہیں۔

اس فیصلے کے فوری بعد وائٹ ہاؤس کی طرف سے کہا گیا تھا کہ امریکی محکمہٴ انصاف اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرے گا۔ لیکن آج مقامی وقت کے مطابق ہفتے کی صبح ہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں اس فیصلے پر اپنے شدید عدم اطمینان کا اظہار بھی کر دیا۔

صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا، ’’اس نام نہاد جج کی رائے، جس کے ذریعے اس ملک سے قانون کے نفاذ کا حق چھین لیا گیا ہے، ایک مضحکہ خیز بات ہے، جسے منسوخ کر دیا جائے گا۔‘‘

اسی موضوع پر اپنی ایک اور ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا، ’’جب کوئی ملک یہ طے کر ہی نہ سکے کہ کون اس ملک میں آ سکتا ہے اور کون نہیں، خاص طور پر تحفظ اور سلامتی کی وجوہات کی بنیاد پر، تو یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔‘‘

امریکا میں سیاٹل، بوسٹن، نیو یارک اور واشنگٹن سے ملنے والی مختلف نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق اس عدالتی فیصلے کے چند ہی گھنٹے بعد امریکا کے کسٹمز اور قومی سرحدوں کی حفاظت کے ملکی محکمے کی طرف سے تمام فضائی کمپنیوں کو یہ کہہ دیا گیا کہ وہ اپنی تجارتی پروازوں کے ذریعے ایسے مسافروں کو پھر سے امریکا لانا شروع کر سکتی ہیں، جنہیں اس عدالتی فیصلے سے قبل کسی مہاجر یا پابندی سے متاثرہ سات ملکوں کے کسی شہری کو امریکا لانے کی اجازت نہیں تھی۔

USA Staat Washington Protest in Seattle gegen Donald Trump - Einreisestopp
سیاٹل میں ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی کے خلاف عوامی مظاہرہتصویر: Reuters/D. Ryder

صدر ٹرمپ کے اپنا عہدہ سنبھالنے کے صرف ایک ہفتہ بعد ستائیس جنوری کو جاری کردہ ایک ایگزیکٹو آرڈر کے بعد امریکا کے درجنوں بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر اس وقت انتہائی پریشان کن صورت حال پیدا ہو گئی تھی، جب باقاعدہ ویزا لے کر آنے والے ہزاروں غیر ملکیوں کو امریکا میں داخلے کے اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ تب امریکا کے مختلف شہروں میں ٹرمپ کے خلاف مظاہرے بھی شروع ہو گئے تھے۔

یہ سات مسلم اکثریتی ملک ایران، عراق، شام، لیبیا، سوڈان، صومالیہ اور یمن ہیں، جن کے شہریوں کو، چاہے وہ پہلی بار امریکا آ رہے تھے یا پہلے سے امریکا ہی میں مقیم تھے لیکن غیر ملکیوں کے طور پر بیرون ملک سے واپس لوٹ رہے تھے، دوبارہ امریکا داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں