1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انتخابات کی تیاری، اقلیتوں پر بھاری

امان اظہر، واشنگٹن
26 جون 2018

سکھ سماجی کارکن چرن جیت سنگھ کے قتل، ہندو بیوہ کی املاک پر غیرقانونی قبضہ، احمدیوں کی تاریخی مسجد کا پر ہجوم انہدام بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتیں اگر جان کی امان پائیں گی تو ووٹ کا حق استعمال کریں گی نہ!

https://p.dw.com/p/30EMz
Hasan Mujtaba
تصویر: Privat

طریقہ انتخابات مخلوط  بحال ہوا لیکن  اقلیتی ووٹروں کے مسائل مزید گنجلک ہو چلے ہیں۔ مثال کے طور پر اب اقلیتیں، ہندو، سکھ اورعیسائی جنرل نشستوں پر پارٹیوں کے نامزد امیدوار کو ووٹ تو دیتی ہیں لیکن پھر بھی  قومی اور صوبائی اسمبلی میں چھ سات نشستیں اقلیتوں کے لیے محفوظ ہیں جو جیت کر آنیوالی اکثریتی پارٹی یا وہ جسے "پنڈی کے پیا" چاہیں جوڑ توڑ کرنے میں مددگار یا 'اسپیئر وہیل' کے طور پر کام آتی ہیں۔

 سندہ میں تھرپارکر، جہاں پاکستانی ہندوؤں کی اکثریت بستی  ہے، کے سماجی رہنما کرشن شرما کے بقول ، "پچیس سال کے نظام انتخاب میں ووٹ ڈالنے اور حاصل کرنے  کا جو پیٹرن  ہے اس سے اب بھی اقلیتی ووٹر کا مداوا خواب ہی ہے۔ مخلوطی نمائندہ کہتا ہے کہ اپنی جاتی برادری کے مخصوص منتخب نمائندے کے پاس جاؤ اور مخصوص نشست پر آنیوالا کہتا ہے کہ اپنے مسائل کے حل کو جنرل سیٹ والے نمائندے کے پاس جاؤ۔" یعنی کہ دونوں طرح اقلیتی ووٹر’ فُٹ بال‘ بنا ہوا ہے۔

اگرچہ پاکستان میں اب بھی ہندو عوام پاکستان کی سب سے بڑی اقلیت ہے جسکی مثال تازہ ہونیوالی مردم شماری میں ہندو برادری کی تعداد تین اعشاریہ چھ فیصد بتائی گئی ہے۔ لیکن اس پہ کرشن شرما جیسے ہندو برادری کے اراکین کے نزدیک ستم یہ ہوا ہے کہ تازہ مردم شماری میں مذہب کے کالم میں ہندو کو ہندو اور دلت میں بانٹا گیا ہے جس سے ہندو ووٹ تقسیم ہوگا۔

سکھ سماجی کارکن چرن جيت سنگھ کی آخری رسومات کا ايک منظر
سکھ سماجی کارکن چرن جيت سنگھ کی آخری رسومات کا ايک منظرتصویر: DW/F. Khan

دلت کا بیانیہ ہندو کے خلاف وہی ہے جو پاکستانی ریاست کا ہے یعنی اونچی ذات والے ہندو کا نچلی ذات والے ہندو پر ظلم۔ یہ بھی حقیقت  ہے کہ ابھی چند برسوں قبل تک سندہ کے علاقوں میں چائے خانوں اور طعام گاہوں میں نچلی ذات کے ہندوؤں اور اوپری ذات کے ہندوؤں کے کھانے پینے کے برتن الگ الگ ہوا کرتے تھے۔ اس سے بھی چند سال قبل ماضی قریب  تک تھر میں "ہندو پانی"  "مسلمان پانی" لکھا ہوا ہوتا تھا۔  کیا تھر میں اب بھی ذات کی بنیاد پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے؟ میں نے ایک نام نہاد اونچی ذات کے ہندو دوست سے پوچھا ۔ "ہاں مگر اب دلت وہ سلوک  ہم سے کرتے ہیں۔ مکافات عمل ہے"۔

پنجاب میں صورتحال سندہ سے قدرے مختلف ہے۔ پاکستان میں غیر مسلم شہریوں کی دوسری بڑی اکثریت مسیحیوں پر

مشتمل ہے۔ انکا ووٹ پاکستان مسلم لیگ نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیاں بٹّے ہونے کے باوجود اکثریتی طور پر مسلم لیگ نون کو پڑنے والا ہے کیونکہ پنجاب میں شہباز شریف حکومت نے مسیحی آبادیوں کے لیے شادی کے قوانین سمیت کچھ بنیادی قانون سازی کی ہوئی ہے۔ لیکن قانون سازی کا تعلق انتخابات سے زیادہ سی پیک منصوبوں سے ہے کیونکہ چین کا دباؤ ہے کہ پیارا پاکستان امتیازی قوانین میں تبدیلی لائے۔

                                   

چین اپنا یار ہے اس پہ جاں نثار ہے

پر وہاں ہے جو نظام

اس طرف نہ جائیو. اس کو دور سے سلام 

جماعت احمدیہ ، جس نے  پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر ہونیوالے انتخابات میں تو ذوالفقار علی بھٹو اور انکی پارٹی کو پنجاب میں اکثریتی ووٹ دلوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، پر اسی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں  ستمبر انیس سو چوہتر میں پارلیمان کی طرف سے غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے  کے بعد سے آج تک اپنے ووٹ کا استعمال ہی نہیں کر رہے۔ اسی طرح  کم و بیش بیس لاکھ ووٹر چوالیس سال سے اپنے  حق رائے دہی  سے محروم ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔