1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسانی آنکھ سورج کے وسیع بازوؤں کے پار

3 جنوری 2019

ناسا کا خلائی مشن ’نیوہورائزن‘ یا ’نیا افق‘ نظام شمسی کے انتہائی بیرونی کنارے پر موجود الٹیما تھُولی کے انتہائی قریب سے تصاویر لیتے ہوئے مزید آگے بڑھ گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3AyeW
Nasa-Sonde «New Horizons» trifft «Ultima Thule»
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA/JHUAPL/SwRI

برف کی دو چٹانوں پر مشتمل یہ خلائی چٹان زمین سے قریب ساڑھے چھ ارب کلومیٹر دور ہے۔ یکم جنوری کو عالمی وقت کے مطابق ساڑھے بارہ بجے شب نیوہورائزن نے الٹیما تھُولی کی تصاویر لیتا آگے بڑھ گیا۔ الٹیما تھُولی کے پاس سے گزرتے ہوئے نیوہورائزن کا اس خلائی چٹان سے قریب ترین فاصلہ فقط بائیس سو میل کا تھا۔

سن 2015ء میں نیوہورائزن ہی نے بونے سیارے پلوٹو کی تصاویر لی تھیں، تاہم الٹیما تھُولی سے نیوہورائزن کا قُرب پلوٹو کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تھا۔

ناسا خلا میں نامیاتی مرکبات کی تلاش میں

چاند پر امریکی لینڈنگ سچ یا جھوٹ، روس حقائق تلاش کرے گا

الٹیما تھُولی دلچسپ کیوں ہے؟

سائنس دانوں کے خیال ہے کہ اب تک کے انسانی خلائی مشنوں کے سامنے سے گزرنے والے اجرام میں الٹیما تھُولی  نظام شمسی کے قدیمی ترین اجرام میں سے ایک ہے۔ یہ دو خلائی چٹانوں کے اتصال سے بنا ایک ’سنومین‘ طرز کا جسم ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا حجم پلوٹو کے مقابلے میں سو گنا تک کم ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ پلوٹو کا کل رقبہ پندرہ سو میل کا ہے۔ الٹیما تھُولی نظام شمسی کے اس حصے میں ہے، جہاں درجہ حرارت انتہائی کم ہے، اس لیے اس پر موجود مرکبات اور کیمیائی مواد نہایت محفوظ ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق اس چھوٹے سے جِرمِ فلکی نے نظام شمسی کے بہت سے راز چھپا رکھے ہیں۔

الٹیما تھُولی نظام شمسی کے کوئپلر بیلٹ میں موجود ہے۔ لاکھوں خلائی چٹانوں اور پتھروں سے مزین اس بیلٹ میں نظام شمسی میں سیاروں کی تخلیق کے وقت یعنی قریب ساڑھے چار ارب سال پہلے، بچا کھچا مواد ہے۔ سن 1990 تک سائنس دان اس بیلٹ سے ناواقف تھے۔ یہ بیلٹ سورج سے قریب 4.8 ارب کلومیٹر کے فاصلے سے شروع ہوتی ہے۔ اس بیلٹ میں اربوں خلائی پتھر، الٹیما جیسی لاکھوں خلائی چٹانیں اور پلوٹوں جیسے متعدد بونے سیارے موجود ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کوئپربیلٹ اس لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیوں کہ سورج سے بہت زیادہ فاصلہ ہونے کی وجہ سے یہاں موجود خلائی اجرام نے اربوں سال قبل کے اصل حالات کو محفوظ کر رکھا ہے۔

نیوہورائزن مشن کے پرنسپل انویسٹیگیٹر ایلن سٹیرن کے مطابق، ’’جب آپ الٹیما کے پاس سے گزرتے ہیں، تو اصل میں اربوں برس قبل ماضی میں جھانک رہے ہوتے ہیں۔‘‘

نیوہورائزن ساڑھے اکیاون ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے، یعنی یہ خلائی مشن روزانہ کی بنیاد پر کوئی ایک ملین میل کا فاصلہ طے کر لیتا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ اس رفتار کے ساتھ چلتے ہوئے اگر چاول کے برابر کوئی خلائی پتھر بھی نیوہورائزن سے ٹکرا جائے، تو یہ خلائی مشن تباہ ہو جائے گا۔ سٹیرن کا کہنا ہے، ’’ہم نہیں چاہتے کہ ایسا ہو جائے۔‘‘

نیوہورائزن کی جانب سے الٹیما تھُولی کی انتہائی قریب سے لی گئی تصاویر اور دیگر معلوماتی ڈیٹا رواں برس مارچ تک پراسس ہو پائیں گے، تاہم ناسا نے وصول ہونے والی کچھ تصاویر جاری کی ہیں۔

واضح رہے کہ الٹمیا تھُولی کو ہبل خلائی دوربین نے سن 2014ء میں دریافت کیا تھا۔ سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ الٹمیا تھُولی گول نہیں ہے، بلکہ ممکنہ طور پر دو اجرام کا اتصال ہے۔ نیوہورائزن سے موصول ہونے والی تصاویر سے تصدیق ہوتی ہے کہ یہ خلائی چٹان اصل میں دو چٹانوں کے نہایت آہستگی سے ملاپ کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے، جس میں ایک حصے کو الٹیما اور دوسرے کو تھُولی کا نام دیا گیا ہے اور ان کے درمیان تین ایک کی نسبت ہے۔

ع ت، ع ح (روئٹرز، اے ایف پی)