1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اورلینڈو حملہ: امریکا اپنے ہاں اسلحے کو کنٹرول کرے، الحسین

مقبول ملک14 جون 2016

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید رعد الحسین نے مطالبہ کیا ہے کہ ریاست فلوریڈا کے شہر اورلینڈو میں ویک اینڈ پر ہونے والی خونریزی جیسے واقعات کو آئندہ روکنے کے لیے امریکا کو اپنے ہاں ہتھیاروں کو کنٹرول کرنا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/1J6UO
USA Waffengesetze Gun Control Josh Karrasch
امریکا میں ہتھیاروں کا ایک تاجر اپنی دکان میں ایک گن کے ساتھتصویر: DW/I. Pohl

سوئٹزرلینڈ میں جنیوا سے منگل چودہ جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق عالمی ادارے کے انسانی حقوق کے کمشنر نے کہا کہ امریکا میں اورلینڈو جیسے ہلاکت خیز حملوں کے مستقبل میں دوہرائے جانے سے بچنے کے لیے وہاں ہتھیاروں کی مؤثر نگرانی کو یقینی بنانا ضروری ہے اور اس کے لیے زیادہ سخت ضابطے متعارف کرائے جانا چاہییں۔

زید رعد الحسین نے کہا، ’’واشنگٹن حکومت کو اپنی وہ ذمے داریاں اچھی طرح پوری کرنا چاہییں، جن کے تحت وہ تمام امریکی شہریوں کے تحفظ کی پابند ہے۔ ایسی خونریزی، جو بار بار دیکھنے میں آتی ہے اور جس کا تدارک ممکن ہے، امریکا میں ہتھیاروں کی ناکافی روک تھام اور غیر مؤثر نگرانی کا براہ راست نتیجہ ہے۔‘‘

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر نے منگل کے روز اپنے ایک بیان میں کہا، ’’اس بات کی کوئی منطقی وضاحت بہت مشکل ہے کہ امریکا میں ایسے لوگ بھی بڑی آسانی سے مہلک آتشیں ہتھیار خرید سکتے ہیں، جو مجرمانہ پس منظر کے حامل ہوں۔‘‘

الحسین نے واضح طور پر کہا، ’’مجرمانہ پس منظر کے حامل وہ افراد جو عام شہریوں کی طرح امریکا میں آج بھی بڑی آسانی سے مہلک اسلحہ قانونی طور پر خرید سکتے ہیں، ان میں منشیات کے عادی، گھریلو تشدد کے مرتکب، ذہنی طور پر بیمار اور ایسے افراد بھی شامل ہیں، جو ماضی میں اندرون ملک یا بیرون ملک انتہا پسندوں کے ساتھ براہ راست رابطوں میں رہے ہوں۔‘‘ الحسین نے کہا کہ ایسے حالات میں ان ہتھیاروں کا خونریز حد تک غلط استعمال کیسے روکا جا سکتا ہے؟

Schweiz UN-Menschenrechtsrat Said Raad al-Hussein
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید رعد الحسینتصویر: picture-alliance/dpa/M. Trezzini

اے ایف پی کے مطابق عالمی ادارے کے انسانی حقوق کے نگران اس اعلیٰ ترین اہلکار کے اس بیان کا پس منظر فلوریڈا کے شہر اورلینڈ میں اتوار بارہ جون کو علی الصبح پیش آنے والا وہ ہلاکت خیز واقعہ ہے، جس میں ایک امریکی شہری نے فائرنگ کر کے 49 افراد کو ہلاک اور 53 کو زخمی کر دیا تھا۔

ملزم کا نام عمر متین تھا، جو ایک افغانی نژاد امریکی شہری تھا اور جس نے اس حملے کے لیے اورلینڈو میں ہم جنس پرست افراد کے ’پَلس‘ نامی مشہور نائٹ کلب کا انتخاب کیا تھا۔ اس خونریز واقعے کے دوران عمر متین پولیس کمانڈوز کی کارروائی کے دوران اس وقت خود بھی مارا گیا تھا، جب وہ مسلح حالت میں ابھی اس کلب کے اندر ہی موجود تھا۔

اس پس منظر میں اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمشنر زید رعد الحسین نے اپنے بیان میں امریکی حکومت سے پوچھا ہے، ’’اس سے قبل کہ امریکا اپنے ہاں مزید مؤثر اور سخت گن کنٹرول قوانین متعارف کرائے، ہمیں ابھی قتل عام کے ایسے اور کتنے واقعات دیکھنا پڑیں گے، جن میں کوئی مسلح حملہ آور اندھا دھند فائرنگ کر کے کسی اسکول کے بہت سے بچوں، اپنے ساتھی کارکنوں یا پھر چرچ جانے والے سیاہ فام امریکیوں کو قتل کر دے؟‘‘

اے ایف پی نے یہ بھی لکھا ہے کہ امریکا میں نیشنل رائفل ایسوسی ایشن نامی اس قومی تنظیم کی لابی بہت مضبوط ہے جو زیادہ سخت گن کنٹرول کے خلاف ہے اور جو اس بات کی حامی ہے کہ عام شہریوں کے لیے آتشیں اسلحے کی باآسانی خریداری ممکن ہونی چاہیے۔

USA Orlando Omar Mateen mutmaßlicher Attentäter
انچاس افراد کی جان لینے والا اورلینڈو حملے کا ملزم عمر متین جو خود بھی پولیس کے ہاتھوں مارا گیاتصویر: Imago/ZUMA Press

امریکا میں عام شہریوں کے پاس موجود آتشیں ہتھیاروں کی مجموعی تعداد سینکڑوں ملین بنتی ہے اور وہاں ہر سال انہی ہتھیاروں کی وجہ سے ہزارہا انسان ہلاک یا زخمی بھی ہو جاتے ہیں۔

خود امریکی صدر باراک اوباما نے بھی اورلینڈ حملے کے بعد کہا تھا، ’’ہم نے ایسے (عمر متین جیسے) افراد کی بہت طاقت ور ہتھیاروں تک بہت جلد رسائی کو بہت آسان بنا رکھا ہے، جو کسی پرتشدد کارروائی یا خونریزی کے ارتکاب کا ارادہ رکھتے ہوں۔‘‘