1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اٹلی کی مہاجرین کو واپس بھیج دینے کی دھمکی

شمشیر حیدر dpa/AP/Reuters
29 جون 2017

اطالوی حکومت کا کہنا ہے کہ اگر یورپی یونین کے باقی ممالک مہاجرین کا بوجھ بانٹنے پر رضامند نہ ہوئے تو بحیرہ روم میں سرگرم امدادی بحری جہازوں کو تارکین وطن کو اطالوی ساحلوں پر لانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/2fcFm
Italien Palermo - 8000 Flüchtlinge im Mittelmeer gerettet
تصویر: picture-alliance/ROPI/I. Petyx

متعدد نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں نے یہ بات اعلیٰ اطالوی حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتائی ہے کہ اٹلی نے تارکین وطن کو اطالوی ساحلوں پر آنے سے روکنے اور انہیں واپس بھیج دینے کی دھمکی دی ہے۔

بحیرہ روم کے راستوں سے مہاجرین کی آمد میں تیس فیصد اضافہ

اس سال اب تک مزید کتنے پاکستانی جرمنی پہنچے؟

ڈی پی اے کے مطابق اطالوی حکومتی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ بحیرہ روم میں مہاجرین کو ریسکیو کرنے والے امدادی بحری جہازوں میں کئی سماجی تنظیموں کے بحری جہازوں کے علاوہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کے محافظ ادارے ’فرنٹیکس‘ کے بحری جہاز بھی شامل ہیں۔

روم حکومت نے دھمکی دی ہے کہ اگر دیگر یورپی ممالک نے اٹلی میں موجود تارکین وطن کا بوجھ بانٹنے پر رضامندی کا اظہار نہ کیا تو سمندر سے بچائے جانے والے تارکین وطن کو واپس لوٹا دیا جائے گا اور انہیں بحیرہ روم سے ریسکیو کر کے اطالوی ساحلوں پر لانے والے تمام امدادی بحری جہازوں کو اطالوی بندرگاہوں پر آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

یورپی یونین کے امور سے متعلق اطالوی وزیر موریزیو ماساری نے روم حکومت کا یہ پیغام یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت دیمیتریس افراموپولوس تک پہنچا دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس پیغام میں افراموپولوس کو بتایا گیا کہ ’اٹلی کو ایک انتہائی سنجیدہ صورت حال کا سامنا ہے اور یورپ اس صورت حال میں اٹلی کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا‘۔

یورپی رہنماؤں کی توجہ مہاجرین کی آمد روکنے اور ملک بدریوں پر

روئٹرز سے گفت گو کرتے ہوئے ایک اور اطالوی حکومتی اہلکار نے بھی اس منصوبے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ’’غیر ملکی امدادی بحری جہازوں کی اطالوی ساحلوں پر آمد پر پابندی زیر غور ہے۔‘‘ اس اہلکار کا کہنا تھا کہ ان اقدامات کے ذریعے دیگر یورپی ممالک پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے کیوں کہ بحیرہ روم میں سرگرم زیادہ تر سماجی تنظیموں کا تعلق جرمنی، مالٹا اور اسپین جیسے یورپی ممالک سے ہے۔

روم حکومت کا یہ اعلان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب ایک طرف اٹلی میں مقامی انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے اور دوسری طرف رواں ہفتے ریکارڈ تعداد میں دس ہزار تارکین وطن کو سمندر سے ریسکیو کر کے اطالوی ساحلوں تک پہنچایا گیا۔ اٹلی کی موجودہ حکومت کو تارکین وطن کے حوالے سے نرم رویہ اختیار کرنے کے باعث شدید عوامی دباؤ کا سامنا بھی ہے۔

اٹلی نے دو لاکھ تارکین وطن کو رہائش مہیا کرنے کا بندوبست کر رکھا تھا تاہم یہ جگہیں تقریباﹰ بھر چکی ہیں۔ گزشتہ برس بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے ایک لاکھ اسی ہزار سے زائد تارکین وطن اٹلی پہنچے تھے تاہم اس برس اٹلی کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور رواں برس کے پہلے پانچ ماہ میں چھہتر ہزار سے زائد غیر ملکی بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی پہنچ چکے ہیں۔

دوسری جانب یورپی ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا منصوبہ بھی عملی طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ دو برس قبل یورپی یونین نے اٹلی اور یونان سے ایک لاکھ ساٹھ ہزار تارکین وطن کو دیگر یورپی ممالک میں آباد کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ تاہم زیادہ تر مشرقی یورپی ممالک کی مخالفت کے باعث اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

جرمنی میں نئی زندگی (2): کسے پناہ ملے گی اور کسے جانا ہو گا؟

پاکستانی تارکین وطن کی واپسی، یورپی یونین کی مشترکہ کارروائی