1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران عالمی دہشت گردی میں تعاون کرتا ہے، امریکا

31 مئی 2013

امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جاری کی گئی ایک تازہ رپورٹ میں ایران پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی میں معاونت جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم القاعدہ کا اثر و رسوخ کم ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/18haP
تصویر: picture-alliance/dpa

اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جاری کردہ اس تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس کے دوران اس تناظر میں ایران کی کارروائیاں گزشتہ دو دہائیوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ نوٹ کی گئی ہیں۔ سیاسی تشدد کے رحجانات کے حوالے سے جمعرات کے دن جاری کی گئی اس تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران کی القدس فورس، وزارت برائے خفیہ امور اور لبنان میں سرگرم اس کی حامی شیعہ جنگجو تنظیم حزب اللہ نے یورپ اور ایشیا میں متعدد حملوں کی منصوبہ بندی میں کردار ادا کیا۔

اس رپورٹ میں جولائی 2012ء میں بلغاریہ میں ہوئے اس حملے کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، جس میں پانچ اسرائیلی اور بلغاریہ کا ایک باشندہ مارا گیا تھا۔ اس حملے میں 32 افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق، ’’سال 2012 کے دوران... ایران اور حزب اللہ کی دہشت گردانہ کارروائیاں اُس نکتے پر پہنچ گئی تھیں، جو 1990ء کے بعد سے نظر نہیں آئی تھیں۔‘‘

اس امریکی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد اقوام متحدہ میں ایران کے مشن کی طرف سے ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ میں ایرانی سفیر محمد خازئی نے جولائی میں بلغاریہ کے حملے میں تہران حکومت کے ملوث ہونے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ دراصل یہ حملہ اسرائیل کی طرف سے ہی کیا گیا تھا۔ محمد خازئی نے مزید کہا تھا، ’’ ہم معصوم شہریوں پر ایسے بہیمانہ حملے میں ملوث تھے اور نہ ہی کبھی ہوں گے۔‘‘

Noruz persisches Neujahr Tradition Mahmoud Ahmadinejad
ایرانی صدر محمود احمدی نژادتصویر: picture-alliance/AP Photo/Office of the Supreme Leader

یہ رپورٹ ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے، جب امریکی اور یورپی خفیہ حکام نے کہا ہے کہ ایران اور حزب اللہ شام میں صدر بشار الاسد کی جنگ میں ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے بقول یہ دونوں یہ صدر اسد کی طرف سے اپنے ہی شہریوں کے خلاف جاری خونی کریک ڈاؤن میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں صرف 2012ء کے واقعات کو قلمبند کیا گیا ہے، اس لیے اس میں بوسٹن میراتھن ریس کے دوران ہوئی دہشت گردانہ کارروائی یا لندن میں برطانوی فوجی کی ہلاکت کا تذکرہ نہیں کیا گیا ہے۔

مجموعی طور پر اس رپورٹ میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں کا ملا جلا رحجان ملتا ہے۔ اس کے مطابق القاعدہ کا پاکستانی گروہ کافی حد تک کمزور ہو گیا ہے اور اس دہشت گرد تنظیم کی اعلیٰ قیادت کی ہلاکت کے بعد اس سے منسلک عسکریت پسند گروہ اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے، اپنے اپنے علاقوں تک ہی محدود ہو گئے ہیں۔

اس رپورٹ کے بقول گزشہ برس 85 ممالک میں دہشت گردانہ حملے کیے گئے جبکہ 55 فیصد حملے اور 62 فیصد ہلاکتیں صرف تین ممالک میں ہوئیں۔ ان ممالک میں پاکستان، افغانستان اور عراق شامل ہیں۔ مزید کہا گیا ہے کہ 2012ء میں مجموعی طور پر چھ ہزار 771 دہشت گردانہ حملے ہوئے، جن کے نتیجے میں گیارہ ہزار 98 افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ ایک ہزار 280 افراد کو اغوا کیا گیا یا انہیں یرغمال بنایا گیا۔

اس رپورٹ کو ترتیب کرنے کے طریقہ کار میں تبدیلی لائی گئی ہے، اس لیے اس کا سال 2011 کی رپورٹ سے تقابلی جائزہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔

ab/ng(Reuters)