1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران مخالف نئی امریکی چال، ’اقوام متحدہ کی ساکھ داؤ پر‘

19 اگست 2020

سلامتی کونسل میں زبردست شکست کے بعد امریکا اب اقوام متحدہ میں ایران پر پابندیاں عائد کرنے کی قراردار پیش کرنے جا رہا ہے۔ اس سے ٹرمپ انتظامیہ مزید تنہائی کا شکار ہو سکتی ہے لیکن اقوام متحدہ کی ساکھ بھی داؤ پر ہے۔

https://p.dw.com/p/3hBMg
Symbolbild Kündigung Atomabkommen mit Iran durch USA
تصویر: Getty Images/AFP/C. Barria

سن 2015ء میں ہونے والے جوہری معاہدے کے بعد اقوام متحدہ نے ایران پر عائد پابندیاں نرم کر دی تھیں۔ اس کے دو برس بعد امریکا اس جوہری معاہدے سے دستبردار ہو گیا تھا اور اس نے یکطرفہ طور پر تہران کے خلاف پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

اب امریکا یہ چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ بھی ایران پر مزید سخت پابندیاں عائد کرے۔ گزشتہ ہفتے امریکا نے سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی تھی کہ ایران کو اسلحہ کی فروخت پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کی مدت میں توسیع کی جائے۔ اس میں امریکا کو بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب امریکا سفارتی محاذ پر ایران کو شکست دینا چاہتا ہے۔

امریکا کی نئی چال کیا ہے؟

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو جمعرات 20 اگست کو نیویارک جائیں گے اور سلامتی کونسل کے صدر سے ''سنیپ بیک میکنزم‘‘ متحرک کرنے کی اپیل کریں گے۔ سلامتی کونسل میں یہی میکنزم جوہری معاہدے کی توثیق کرتا ہے۔ سلامتی کونسل میں اگر یہ طریقہ کار لاگو کیا جائے تو کوئی بھی رکن اقوام متحدہ کی تمام پابندیوں کی بحالی کا مطالبہ کر سکتا ہے اور کوئی بھی رکن ملک ویٹو کے ذریعے اسے روک نہیں سکتا۔

UN-Sicherheitsrat New York 2016 | Waffenembargo Libyen
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو جمعرات 20 اگست کو نیویارک جائیں گے اور سلامتی کونسل کے صدر سے ''سنیپ بیک میکنزم‘‘ متحرک کرنے کی اپیل کریں گے۔تصویر: Imago Images/Xinhua

گزشتہ ہفتے امریکا کو اسی حوالے سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سلامتی کونسل میں صرف ایک ملک نے امریکا کا ساتھ دیا تھا۔ چین اور روس نے ایران پر پابندیوں کی مخالفت کر دی تھی جبکہ 11 ملک غیرحاضر رہے تھے۔

ایران پر اسلحے کی پابندیوں کی توسیع کی طرح ہی چین اور روس امریکا کے ’’سنیپ بیک منصوبے‘‘ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکی اتحادی برطانیہ اور فرانس بھی اس پلان کے خلاف ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس امریکی پیش رفت سے اقوام متحدہ کے سب سے طاقتور ادارے سلامتی کونسل کے وجود پر ہی سوالات اٹھنا شروع ہو جائیں گے۔

اسلحے کی پابندی میں توسیع کا مطالبہ غیر حقیقی ہے، ایران

ایرانی جوہری ڈیل: مکمل امریکی علیحدگی، یورپی فریق برہم

اقوام متحدہ میں امریکا کے خلاف ایران کی شکایت

15 رکنی سلامتی کونسل میں امریکا ابھی تک یہ کہتا آ رہا ہے کہ وہ جوہری معاہدے کا مرکزی کردار تھا اور اس لیے اس کو تمام پابندیاں بحال کرنے کا حق حاصل ہے۔ دیگر اراکین کا کہنا ہے کہ امریکا نے اس وقت ہی یہ حق کھو دیا تھا، جب اس نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔

ایران کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کا یہ موقف انتہائی متنازعہ ہے۔ چینی، روسی اور یورپی حکام اس موقف کے شدید مخالف ہیں۔ حتٰی کہ امریکا میں ایران کے شدید ناقد بھی اس معاملے پر ٹرمپ کے ساتھ نہیں ہیں۔

ٹرمپ کے سابق قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے بھی ایران مخالف پوزیشن پر ٹرمپ انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے سنیپ بیک کا حق ''اسی وقت کھو دیا" تھا، جب وہ جوہری معاہدے سے الگ ہوا تھا۔ ان کے مطابق ٹرمپ کا یہ اقدام سلامتی کونسل میں امریکا کی حیثیت کو نقصان پہنچائے گا۔

حیران کن طور پر یہ بیان دینے کے بعد ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے بھی جان بولٹن کی تعریف کی تھی۔ اسی طرح جوہری معاہدہ کرنے میں مدد فراہم کرنے والے اوباما انتظامیہ کے مشیر وینڈی شیرمن نے بھی ٹرمپ انتظامیہ پر کڑی تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل امریکا کے اس مطالبے کو نظرانداز کر سکتی ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ سلامتی کونسل کی قابلیت پر سوال اٹھے گا کہ وہ اپنے ہی قانونی فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کی صلاحیت نہیں رکھی۔

ا ا / ا ب ا (اے پی، روئٹرز، اے پی)