1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی صدارتی انتخابات: نتیجے کا اثر جوہری معاہدے پر پڑے گا

17 جون 2021

ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری ڈیل کی بحالی کی بات چیت ابھی تک نامکمل ہے۔ ایران میں نئے صدارتی الیکشن جمعے یعنی اٹھارہ جون کو ہو رہے ہیں۔ سفارت کار جوہری ڈیل کی بحالی کو الیکشن کے نتیجے سے منسلک کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3v5VR
Österreich | Internationale Atomenergie-Organisation | Iran Atomstreit
تصویر: Thomas Kronsteiner/Getty Images

بین الاقوامی مبصرین اور سفارتکاروں کا خیال ہے کہ اٹھارہ جون کے صدارتی انتخابات کا براہِ راست اثر ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے پر مرتب ہو گا۔ اب تک عالمی طاقتیں قدرے اعتدال پسند صدر حسن روحانی کے ساتھ مکالمت کا عمل جاری رکھے ہوئے تھیں۔ اب آٹھ برس منصب صدارت پر فائز رہنے کے بعد روحانی کے اقتدار کا سورج غروب ہونے والا ہے۔

ایرانی صدارتی الیکشن میں نوجوانوں کی دلچسپی انتہائی کم

سن 2015 میں طے پانے والی جوہری ڈیل کا ڈھانچہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں (سن 2018) اس وقت منہدم ہو گیا، جب انہوں نے یک طرفہ طور پر اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

Östtreich | Kundgebungen bei Wiener Atomverhandlungen
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کا وہ ہوٹل جہاں ایرانی جوہری ڈیل کی بحالی کے مذاکرات جاری ہیںتصویر: Askin Kiyagan/AA/picture alliance

سخت پابندیاں اور نگرانی کا عمل

ایران اس وقت ٹرمپ دور میں عائد کی جانے والی شدید نوعیت کی اقتصادی پابندیوں میں تبدیلی کا خواہشمند ہے اور دوسرا فریق یعنی عالمی طاقتیں یہ چاہتی ہیں کہ ایرانی جوہری پروگرام کی نگرانی مزید سخت کرنے کے ساتھ ساتھ یورینیئم کے ذخیرے کو بھی محدود کر دیا جائے۔

یہ امر اہم ہے کہ ٹرمپ کی پابندیوں کے جواب میں ایران نے یورینیئم افزودگی کی سطح کو بلند کیا تھا۔ ایران اس وقت یورینیئم کی افزودگی کو اعلیٰ سطح پر جاری رکھے ہوئے ہے۔ یورینیئم افزودگی کی یہ سطح ابھی بھی جوہری ہتھیار سازی کے لیے کم ہے۔ ویسے بھی ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔

عراق کے الیکشن، مقتدیٰ الصدر کی ’حیران کن برتری‘

سخت گیر صدر کا ممکنہ انتخاب

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سخت گیر موقف رکھنے والے امیدوار انتخابی مہم  کے دوران اقتصادی پابندیوں کے تناظر میں امریکا کو اپنا ہدف بنائے ہوئے تھے اور کسی ایسے امیدوار کی کامیابی سے بات چیت کا عمل مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ سخت گیر صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد بات چیت کو نئی رکاوٹوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔

Iran Wahlen
ایک صدارتی امیدوار ابراہیم رئیسی کے پوسٹرز کے قریب سے گزرتی دو ایرانی خواتینتصویر: Sobhan Farajvan/Pacific Press/picture alliance

پیچیدہ بین الاقوامی سیاسی معاملات پر نگاہ رکھنے والے یوریشیا گروپ نامی تھنک ٹینک کے ایک تجزیہ کار ہنری روم کے خیال میں سخت گیر صدر سے بہرحال اتنی مشکلات پیدا نہیں ہوں گی جتنی کہ سن 2015 میں اس معاہدے کو حتمی شکل دینے میں ہوئی تھیں۔ روم کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی فریقین اُسی سابقہ ڈیل کی بحالی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

صدر جو بائیڈن اور ان کے سفارت کار دوسری طاقتوں کے ساتھ مل کر ویانا میں ایران کے ساتھ مذاکراتی عمل جاری رکھے ہوئے ہیں تا کہ ڈیل کی بحالی کا بہتر اور مناسب راستہ تلاش کیا جا سکے۔

عام انتخابات کے تین ماہ بعد نئی ایرانی پارلیمان کا اولین اجلاس

مزید نکات پر گفتگو جاری

ہنری روم کا خیال ہے کہ اس وقت بھی فریقین کئی نکات کی جزیات پر گفتگو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق بات چیت پر ایران کی داخلی سیاست کا عمل دخل اور خاص طور پر سخت گیر حلقے کے مفادات بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ روم کا مزید کہنا ہے کہ اس تناظر میں سپریم ایرانی لیڈر کے موقف کو نظر انداز کرنا مشکل ہو گا۔ ایران میں اس وقت ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ سپریم لیڈر کی پسند کا امیدوار بغیر کسی مشکل اور عوامی مخالفت کے صدارتی الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔

Iran | Kandidaten zur iranischen Präsidentenwahl
ایران کے صدارتی الیکشن میں شریک چار نمایاں اور اہم امیدوارتصویر: AP/picture alliance

یہ امر اہم ہے کہ سن 2015 میں جوہری معاہدہ طے ہونے پر ایرانی عوام کا جم غفیر مسرت کے اظہار کے لیے مختلف شہروں کی گلیوں اور سڑکوں پر نکل آیا تھا۔ دوسری جانب امریکی خفیہ اداروں اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کا کہنا ہے کہ سن 2003 تک ایران منظم انداز میں جوہری ہتھیار سازی کے پروگرام کو جاری رکھے ہوئے تھا۔

ع ح /  ع ا (اے پی)