1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایغور مسلمانوں کی گرفتاریاں، کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے

9 دسمبر 2020

چینی پولیس کے افشاء ہونے والے ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ ایغور نسل کے افراد کو اب کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے حراست میں لیا جا رہا ہے۔ یہ کمپیوٹر پروگرام اپنی مرضی سے لوگوں کو حراستی مراکز منتقل کرنے کا انتخاب کرتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3mUEb
DW Investigativ Projekt: Uiguren Umerziehungslager in China ACHTUNG SPERRFRIST 17.02.2020/17.00 Uhr MEZ
تصویر: AFP/G. Baker

امریکا کے نیو یارک سٹی میں قائم انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے چینی صوبے سنکیانگ کی پولیس کے افشاء شدہ ڈیٹا کے حوالے سے ایک کمپیوٹر پروگرام کا بتایا ہے جو اپنی مرضی سے مسلم ایغور کمیونٹی کے افراد کی حراستی مراکز میں منتقلی کا انتخاب کرتا ہے۔ اس پروگرام کے استعمال کی انسانی حقوق کی تنظیم نے مذمت کرتے ہوئے اسے کمپیوٹر کے ذریعے حقوق کی خلاف ورزی سے جوڑا ہے۔ چینی حکومت ان حراستی مراکز کو پیشہ ورانہ تربیت کے سینٹرز قرار دیتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ سے وابستہ مایا وانگ کا کہنا ہے کہ سنکیانگ کے ایغور نسل باشندوں کو اب کمپیوٹر کے ذریعے حکومتی جبر کا سامنا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے معلومات کے ذریعے یا ذرائع کا انکشاف نہیں کیا کیونکہ ایسا کرنے پر معلومات مہیا کرنے والے افراد کو حکومتی تشدد اور گرفتاری کا سامنا ہو سکتا ہے۔ایغور مسلمانوں کو خنزیر کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے، الجزیرہ رپورٹ

منظم جوائنٹ پلیٹ فارم

پولیس کے کمپیوٹر پروگرام کا نام 'انٹیگریٹد جوائنٹ آپریشنز پلیٹ فارم‘  (آئی جے او پی) ہے اور اس میں تقریباﹰ تمام ایغور نسل کے مسلمانوں کا ڈیٹا محفوظ ہے۔ یہ پروگرام جس بنیاد پر افراد کا انتخاب کرتا ہے اس میں ایغور مسلم آبادی کی فراہم کردہ بنیادی ذاتی معلومات ہیں جن میں قران پڑھنے، نماز ادا کرنے، ظاہری وضع قطع جیسے کہ داڑھی رکھنے اور مذہبی لباس کے استعمال شامل ہیں۔ مذہبی پہناوے میں مردوں کے لیے ٹوپی اور عورتوں کے لیے حجاب یا سر پر چادر رکھنا مراد ہے۔ اس پروگرام کی مدد سے سنکیانگ صوبے کے ضلع آکسو کے دو ہزار افراد کو حراستی مراکز میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ آئی جے او پی کا استعمال پولیس کی مدد کے لیے آئندہ حکمت عملی کے حوالے سے کوئی مشورہ دینا ہے۔

China - Dabancheng - Umerziehungslager
ایغور مسلمانوں کے لیے قائم مبینہ تربیتی مراکز کی نگرانی پر سینکڑوں پولیس اہلکار متعین ہیں تصویر: Reuters/T. Peter

کمپیوٹر پروگرم نے مختلف افراد پر جھنڈے کا نشان لگا دیا

سنکیانگ کی پولیس کے زیر استعمال آئی جے او پی پروگرام نے ایغور نسل کے افراد کے ناموں کو ان کی مذہبی عادات کی روشنی میں ،مخصوص نشان یا 'فلیگڈ‘ کر دیا ہے۔ ان فلیگڈ لگے افراد کو تحویل میں لینا آسان ہے۔ ذرائع کے مطابق کمپیوٹر پروگرام نے ورچوےئلی ایغور آبادی کے بے شمار افراد کو نشان زدہ کر رکھا ہے تا کہ انہیں حکام کے ''قانونی‘‘ یا 'تادیبی‘ رویے کا باآسانی سامنا ہو سکے۔ ایسے افراد کے جو رشتہ دار بیرون ممالک ہیں، انہیں بھی پروگرام نے فلیگ کر دیا ہے۔ ابھی تک اس پروگرام کی مدد سے دس فیصد افراد کو دہشت گردی کے شبے میں حراست میں بھی لیا جا چکا ہے۔ بظاہر اس عمل کو ماہرین ناقابل اعتبار قرار دے رہے ہیں۔ایغور مسلمانوں کی حمایت کیوں کی، چین کی پوپ فرانسس پر تنقید

چین کے ایغور ابادی کے ساتھ سلوک اور عالمی تنقید

عالمی برادری چین کی ایغور کمیونٹی کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر تنقید جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان میں امریکا اور یورپی یونین خاص طور پر نمایاں ہے۔ اس تنقید میں پیشہ ورانہ تربیت کے مبینہ مراکز کو 'حراستی سینٹرز‘ قرار دیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ ان مراکز میں دس لاکھ کے لگ بھگ افراد مقید ہے۔ ان مراکز کی چینی حکام نے سخت نگرانی کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے اور مراکز کے گرد سیکڑوں پولیس اہلکار تعینات ہیں۔ چینی حکام کے مطابق جو افراد تربیت مکمل کر لیتے ہیں، انہیں واپس گھروں کو بیج دیا جاتا ہے۔

ع ح، ع ت (اے ایف پی، روئٹرز)