1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایف اے ٹی ایف کی شرائط: حکومتی اقدامات میں تیزی

عبدالستار، اسلام آباد
27 جولائی 2019

پاکستان میں دہشت گردی کی مالی معاونت اور کرنسی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات میں تیزی آگئی ہے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اس حوالے سے ایک سیل بھی قائم کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3MoaF
Demonstration der Unterstützer der Jama'at ud-Da'wah gegen Houthi Rebellen Sanaa Jemen
تصویر: Reuters/Fayaz Aziz

ایف اے ٹے ایف نامی اس سیل کی ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ کرنسی اسمگلنگ اور دہشت گردی کے لیے کی جانے والی مالی معاونت، جو عموما منی لانڈرنگ کے ذریعے ہی ہوتی ہے، کو روکے۔ تاہم ناقدین کا خیال ہے کہ اس مالی معاونت کو روکنے کے لیے صرف بیرونی دنیا سے آنے والے پیسے کو ہی روکنا کافی نہیں ہے۔

واضح رہے پاکستان پر سخت بین الاقوامی دباؤ ہے کہ وہ منی لانڈرنگ اور کرنسی اسمگلنگ کے خلاف سخت اقدامات کرے۔ حکومت نے کرنسی اسمگلنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے کے لیے کچھ گرفتاریاں بھی کی ہیں۔

اس سیل کے مقاصد کے حوالے سے ایف بی آر کے ترجمان ڈاکڑ حامد سرور عتیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایف اے ٹی ایف نے چالیس سے زائد شرائط یا پوائنٹس پاکستان سمیت کئی ممالک کو بتائے ہیں اور ہم اسٹیٹ بینک، ایف آئی اے، کسٹم انٹیلیجنس اور دیگر متعلقہ اداروں سے مل کران شرائط پر کام کر رہے ہیں تاکہ اکتوبر کی ڈیڈ لائن سے پہلے ان شرائط پر پیش رفت ہو سکے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کے پاس ان شرائط کا کوئی بیس سے پچیس فیصد حصہ ہے، ''اس حصے پر ہمیں کام کرنا ہے جب کہ کئی اور معاملات میں اسٹیٹ بینک اور دیگر ادارے کام کر رہے ہیں۔‘‘

اسلام آباد پر دباؤ ہے کہ وہ اکتوبرکی ڈیڈ لائن سے پہلے دہشت گردی کی مالی معاونت، جو منی لانڈرنگ اور دوسرے ذرائع سے ہوتی ہے، کو روکے اور اس کے علاوہ کرنسی اسمگلنگ کی روک تھام کو بھی یقینی بنائے جو ممکنہ طور پر دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

ایف بی آر کے علاوہ اسٹیٹ بینک بھی ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عملدرآمد کرانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے ایک اعلیٰ افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایف اے ٹی ایف کی جو شرائط بینکنگ سیکٹر کے حوالے سے ہیں، ہم ان پر کام کر رہے ہیں۔ کچھ اقدامات لیے جا چکے ہیں۔ کچھ پائپ لائن میں ہیں جب کہ کچھ پر آنے والے دنوں میں کام ہوگا۔‘‘

’گرے لسٹ‘ کے بعد ’بلیک لسٹ‘ میں ڈالے جانے کا خطرہ بھی

پاکستان سے سفر کرنے والا مسافر اس وقت ملک سے ایک سفر میں دس ہزار ڈالر تک اپنے ہمراہ لے جا سکتا ہے جب کہ ملک کے اندر بیرونی کرنسی لانے کی کوئی حد نہیں۔ گو کہ جس ملک سے کرنسی لائی جاتی ہے، وہ کرنسی لے جانے کی حد مقرر کرتے ہیں۔ ایف بی آر کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اب اس بات پر غور کیا جارہا ہے کہ اگر ایک شخص بار بار دس ہزار ڈالرز ملک سے باہر لے کر جاتا ہے تو اسے پوچھا جائے کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے اور اس کی انکم کے ذرائع کیا ہیں۔ اب ایف آئی آئے اور کسٹم انٹیلیجنس مسافر سے اس حوالے سے پوچھ گچھ کر سکتے ہیں۔ جب کہ انکم ٹیکس والے بھی ایسے مسافروں پر نظر رکھیں گے۔ اس کے علاوہ جو مسافر اپنی رقم کو صیح سے ظاہر نہیں کرتے، ان کے لیے ایسی مشینیں لائی جارہی ہیں کہ جس کی بدولت ایئر پورٹ پر یہ معلوم کیا جا سکے گا کہ کوئی شخص چھپا کر کتنی کرنسی لے کر جارہا ہے۔‘‘

اس افسر نے مزید بتایا کہ اس کے علاوہ سرحدوں پر بھی نگرانی سخت کی جارہی ہے۔''سرحدوں سے کرنسی کی اسمگلنگ ہوتی ہے۔ سمندری حدود میں بھی سختی کی جائے گی اور بارڈ پر بھی سختی کی جائے گی۔ اس حوالے سے متعلقہ اداروں میں تعاون کو بڑھایا جارہا ہے۔‘‘

تاہم ناقدین کے خیال میں دہشت گردی کی مالی معاونت کا ایک بڑا ذریعہ بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا خیال ہے کہ ملک کے اندر بھی سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ احسن رضا کے مطابق، ''ماضی میں یہ مناظر دیکھنے میں عام تھے کہ کسی کالعدم تنظیم کے لیے کھانا کسی ایک تاجر نے دے دیا اور کرڑوں روپے کے جلسے یا کسی اور پروگرام کا خرچہ کسی اور تاجر یا صنعت کار نے اٹھا لیا۔ حکومت کو ایسے لوگوں پر بھی نظر رکھنا چاہیے۔ صرف کرنسی اسمگلنگ کو روکنے سے ہی یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔‘‘

تاہم حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ہر سطح پر ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے اقدامات کیے جار ہے ہیں۔ وزارتِ داخلہ کے ایک افسر نے بھی اپنا نام ظاہر نہ کیے جانے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ماضی میں جماعت الدعوہ اور دوسری تنظیموں کے جگہ جگہ چندے کے ڈبے نظر آتے تھے۔ اب آپ پورے ملک میں جائیں اور مجھے بتائیں کہ ایسے ڈبے نظر آرہے ہیں۔ ان کے مدرسے اور دیگر ادارے بھی حکومتی قبضے میں لے لیے گئے ہیں کیونکہ ہم ہر حال میں ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ ملک کی معاشی صورتِ حال کے پیشِ نظر کوئی رسک نہیں لیا جا سکتا۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں