1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایم کیو ایم پر نیا الزام: فوج کے ساتھ نئی محاذ آرائی کا خدشہ

رفعت سعید، کراچی1 مئی 2015

کراچی پولیس کے متحدہ قومی موومنٹ پر بھارتی خفیہ ادارے را کا ایجنٹ ہونے سے متعلق الزام پر الطاف حسین کے ردعمل کی نوعیت سے یہ معاملہ پاکستانی فوج اور ایم کیو ایم کے مابین بظاہر نئی محاذ آرائی کی جانب بڑھتا محسوس ہورہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FIk0
تصویر: picture-alliance/dpa

ماہرین کے مطابق اس نئی صورت حال میں ایم کیو ایم کی کراچی میں موجود قیادت کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب کراچی میں ملیر کے ایس ایس پی راؤ محمد انوار نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران دو دہشت گردوں کی گرفتاری سے متعلق چند انکشافات کیے۔ گرفتار شدگان کے نام طاہر ریحان اور جنید ہیں جو ایم کیو ایم کے کارکن ہیں، اور جن کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ بھارتی خفیہ ادارے RAW کے تربیت یافتہ ہیں۔ راؤ انوار نے نہ صرف الطاف حسین سمیت لندن میں مقیم ایم کیو ایم کی قیادت کو را کے ایماء پر کراچی میں دہشت گردی میں ملوث قرار دیا بلکہ اس پارٹی کے فلاحی ادارے ’خدمت خلق فاؤنڈیشن ‘پر بھی الزام عائد کیا کہ یہ تنظیم تربیت کے لیے بھارت جانے والے دہشت گردوں کی مالی معاونت کرتی ہے۔

راؤ انوار نے ایم کیو ایم کو تحریک طالبان پاکستان سے زیادہ خطرناک تنظیم قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ اسی پریس کانفرنس کے دوران ملزمان طاہر ریحان اور جنید کو بھی میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا، جنہوں نے اپنی زبان سے وہی تمام الزامات دہرائے، جو ایس ایس پی راؤ انوار نے ایم کیو ایم کے خلاف عائد کیے تھے۔

پھر حسب توقع ایم کیو ایم کی جانب اپنے خلاف ان الزامات پر بھرپور ردعمل ظاہر کیا گیا۔ تنظیم کے ایک رہنما حیدر عباس رضوی نے راؤ انوار کی صحافیوں سے بات چیت کو ’سیاسی ڈرامہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہر کے اس سینیئر پولیس افسر کی گفتگو ’جھوٹ اور بہتان کے سوا کچھ نہیں‘ تھی اور رضوی کے بقول اس کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ راؤ انوار نے طاہر ریحان اور جنید کے ایک روز قبل گرفتار کیے جانے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ ان دونوں کو فروی اور مارچ کےمہینوں میں ان کے گھروں سے گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے اہل خانہ نے ان دونوں کی بازیابی کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں درخواستیں بھی دائر کر رکھی ہیں۔

بعد ازاں ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما فاروق ستار کا بھی ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ راؤ انوار کی پریس کانفرنس ’اسکرپٹڈ‘ تھی۔ انہوں نے ایک روز قبل کراچی میں وزیر اعلٰی ہاؤس میں سابق صدر آصف علی زرداری کی وزیر اعلٰی قائم علی شاہ سے ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس ملاقات میں صوبائی سربراہ حکومت کے علاوہ ایک تیسری لیکن بہت اہم شخصیت بھی شریک تھی اور ’ہم اس شخصیت کا پتہ لگانے کی کوشش میں‘ ہیں۔ فاروق ستار کے مطابق ایم کیو ایم پر راؤ انوار کی طرف سے لگائے گئے الزامات نئے نہیں ہیں لیکن اس بار یہ الزامات ’بہت نچلی سطح سے‘ لگائے گئے ہیں۔

چند تجزیہ کاروں کے مطابق راؤ انوار ایک متنازعہ شخصیت ہیں۔ ان کی مبینہ خودسری بھی اتنی ہی مشہور ہے جتنے ان کے سرکردہ سیاسی شخصیات سے تعلقات۔ بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر کراچی پولیس میں بھرتی ہونے والے راؤ محمد انوار ایم کیو ایم کے خلاف 1992ء اور 1995ء میں ہونے والے آپریشنز کے دوران بہت فعال رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشنز میں شریک سینیئر پولیس افسران میں سے صرف راؤ انوار ہی اب تک زندہ ہیں۔

Raheel Sharif
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریفتصویر: picture-alliance/dpa

اس معاملے میں ایم کیو ایم کی جوابی پریس کانفرنس کے بعد صوبائی سربراہ حکومت قائم علی شاہ نے راؤ انوار کی صحافیوں سے گفتگو کا نوٹس لیتے ہوئے سندھ پولیس کے سربراہ سے رپورٹ طلب کر لی۔ آئی جی پولیس نے وزیر اعلٰی کو بتایا کہ راؤ انوار نے نیوز کانفرنس سے پہلے کسی دوسرے سینیئر پولیس افسر کو اس معاملے کی حساسیت سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ اس پر وزیر اعلٰی کے حکم پر آئی جی پولیس نے راؤ انوار کا فوری طور پر تبادلہ کر دیا۔

اپنے تبادلے کے احکامات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے راؤ انوار کا کہنا تھا کہ بطور پولیس افسر جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور کراچی پولیس کی ایسی کوئی ’ایس او پی‘ نہیں کہ کوئی نیوز کانفرنس بلانے سے پہلے کسی سینیئر افسر کو آگاہ کرنا ضروری ہو۔

اس پر صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ راؤ انوار نے پریس کانفرنس کے دوران ایم کیو ایم پر پابندی جیسی سیاسی باتیں بھی کیں اور پھر ٹیلی وژن ٹاک شوز میں بھی بغیر اجازت شرکت کر کے انہوں نے اپنے سیاسی بیان کو دہرایا۔ جو ان کے سرکاری کام کا حصہ نہیں تھا۔ ’’لہٰذا راؤ انوار کا تبادلہ کر دیا گیا ہے۔‘‘

جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب ایم کیو ایم کے لندن میں مقیم قائد الطاف حسین نے کارکنوں سے ایک ٹیلی فونک خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مہاجروں سے دوسری بار مہاجرت نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا، ’’اگر ظلم نہ روکا گیا تو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ پاکستان بنانے والوں کی اولادوں پر بھارتی ایجنٹ ہونے کا بار بار الزام لگایا جاتا ہے اور انگریزوں کے جوتے صاف کرنے والے معزز بنے بیٹھے ہیں۔‘‘

الطاف حسین نے مزید کہا کہ مہاجر نوجوان آپریشن کے دوران جان بچانے کے لیے دنیا کے کئی ممالک میں گئے، جن میں بھارت بھی شامل ہے۔ ’’تو انہوں نے کیا جرم کیا؟ 1971ء میں پاکستان کے تحفظ کی قسم کھانے والے 90 ہزار فوجی بھی تو ڈھاکہ میں بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال کر آئے تھے، لیکن وہ پھر بھی محب وطن ہیں۔‘‘

Asif Ali Zardari
سابق صدر آصف علی زرداریتصویر: Getty Images

اپنے اس خطاب میں الطاف حسین نے متنبہ کیا، ’’اگر مظالم کا یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو نہ تمہاری چھڑی رہے گی، نا بلے رہیں گے اور نہ ہی تمہاری ساکھ رہے گی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اللہ آرمی چیف کو راحیل بھی بنا دے اور شریف بھی۔

اسی دوران پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے اپنے ردعمل میں الطاف حسین کی تقریر کو نفرت انگیز قرار دیتے ہوئے الطاف حسین کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کیا ہے۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈی جی عاصم سلیم باجوہ نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ الطاف حسین نے پاکستانی فوج اور اس کی قیادت کے خلاف ’بلاجواز اور نفرت انگیز تقریر‘ کی ہے۔ ’’کسی سیاسی جماعت کے کچھ جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری پر اس طرح کا ردعمل ناقابل برداشت ہے۔‘‘ باجوہ کے بقول الطاف حسین نے میڈیا کا سہارا لے کر عوامی جذبات بھڑکانے کی کوشش ہے اور لوگوں کو ریاست کے خلاف اکسایا ہے، جس پر ان کے خلاف کارروائی ہو گی۔

دوسری طرف ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کا کہنا ہے کہ الطاف حسین نے اپنی تقریر کے دوران فوجی قیادت پر تنقید نہیں بلکہ اس کی تعریف کی اور آرمی چیف سے اپیل کی کہ وہ ایم کیو ایم کےساتھ انصاف کریں، کیونکہ جس طرح کے الزامات پولیس کی جانب سے لگائے گئے ہیں ان پر ’کسی کے بھی جذبات بھڑک‘ سکتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کی رائے میں راؤ انوار کی پریس کانفرنس میں صرف ایم کیو ایم لندن اور اس سے منسلک افراد پر الزامات عائد کیے گئے ہیں جبکہ گورنر سندھ اور ایم کیو ایم کراچی کی قیادت کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے اور یہ صورت حال مبینہ طور پر ’ایم کیو ایم منفی الطاف حسین‘ کی ممکنہ سوچ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید