1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایگریکلچرل ویسٹ سے بائیو فیول، پاکستانی سائنسدان کے لیے جرمن ایوارڈ

عنبرین فاطمہ، کراچی20 نومبر 2014

جرمنی کی طرف سے دیے جانے والے چھٹے گرین ٹیلینٹ ایوارڈ کے لیے دنیا بھرکے 100ممالک سے 800 امیدواروں نے اپنی سائنسی تحقیق پیش کی۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے دو محققین اپنی تحقیق پر ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

https://p.dw.com/p/1DqIq
Green Talents Preis in Berlin
تصویر: A. Blanke

جرمنی کی طرف سے سائنس کے مختلف شعبوں میں پائیدار تحقیق کے سلسلے میں ہر سال گرین ٹیلنٹ ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد دنیا بھر سے مختلف شعبوں میں پائیدار ترقی کے حوالے سے منفرد خیالات اور تحقیق و جستجو رکھنے والے نوجوان سائنس دانوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور ان کے کام کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانا ان سائنسدانوں کو ایک گلوبل پلیٹ فراہم کرنا ہے۔

ڈاکٹر اسد محمود، کوریا انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں پوسٹ ڈاکٹورل فیلوہیں اور انہوں نے فیول سیل ٹیکنالوجی پر اپنی تحقیق پیش کی تھی۔ جبکہ ڈاکٹر سیف الرحمان کام سیٹس یونیورسٹی لاہور میں تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور انہوں نے ایگریکلچرل ویسٹ یا زرعی تلچھٹ یعنی پودوں اور فصلوں کا بقیہ حصہ جوکٹائی کے بعد کھیتوں میں رہ جاتا ہے، اس سے حیاتیاتی توانائی کے حصول کے حوالے سے تحقیق پیش کی۔

ڈاکٹر سیف الرحمان نے جس زرعی ویسٹ کو تحقیق کا موضوع بنایا وہ چاول کا بھوسہ ہے
ڈاکٹر سیف الرحمان نے جس زرعی ویسٹ کو تحقیق کا موضوع بنایا وہ چاول کا بھوسہ ہےتصویر: FONA

ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سیف الرحمان نے بتایا کہ ان کی تحقیق کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ پاکستان میں جو زرعی تلچھٹ ہے اس سے بائیو فیول اور دیگر بائیو کیمیکلز حاصل کیے جا سکتے ہیں: ’’عام طور پر تلچھٹ ضائع جاتی ہے جس کو عمومی طور پر جلا دیا جاتا ہے۔ اسی تلچھٹ کو لے کر ہم بائیو فیول حاصل کریں جن میں بائیو ایتھنول، بائیو گیس، بائیو ڈیزل یا دوسرے بائیو کیمیکل جو مختلف صعنتوں میں استعمال ہوتے ہیں، حاصل کیے جائیں۔ اس میں جو پائیداری کا پہلو نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ جو زرعی تلچھٹ ہم پراڈکشن چین میں داخل کریں گے، اس میں سے کوئی بھی ویسٹ پیدا نہیں ہو گا۔ جو بھی ویسٹ پیدا ہو گا وہ ری سائیکل ہو جائے گا اور اس سے کوئی نا کوئی پراڈکٹ حاصل ہو گی۔‘‘

بائیو ایتھنول کیا ہے اور اپنی تحقیق میں اس کے حصول اور استعمال پر کیوں زور دیا؟ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سیف الرحمان نے بتایا: ’’بائیو ایتھنول کو جو ترقی یافتہ ممالک ہیں مثلاً برازیل یا امریکا، وہ اسے پیٹرول کے ساتھ، گیسولین کے ساتھ ملاتے ہیں اور اس مکسچر کو بطور فیول استعمال کرتے ہیں۔ یہ گیسولین کا ایک طرح سے متبادل بن جاتا ہے۔ پاکستان میں ہمارے سو فیصد انجن پیٹرول پر یعنی گیسولین پر کام کرتے ہیں۔ لیکن امریکا میں وہ دس فیصد سے تیس فیصد تک مکسچر استعمال کرتے ہیں۔ اس سے ہوتا یہ ہے کہ جب بائیو ایتھینول کو فیول میں استعمال کیا جائے تو یہ گیسولین کا متبادل اور ہمارے تیل کے ذخائر کے تادیر اور پائیدار استعمال کی ضمانت بنے گا۔‘‘

بائیو ایتھنول کو ترقی یافتہ ممالک پیٹرول کے ساتھ ملا کر اس مکسچر کو بطور فیول استعمال کرتے ہیں
بائیو ایتھنول کو ترقی یافتہ ممالک پیٹرول کے ساتھ ملا کر اس مکسچر کو بطور فیول استعمال کرتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

ڈاکٹر سیف الرحمان نے جس زرعی ویسٹ کو تحقیق کا موضوع بنایا وہ چاول کا بھوسہ ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ چاول دنیا بھر میں پیدا کی جانے والی تیسری سب سے بڑی فصل ہے اور اس کی کٹائی کے بعد سالانہ نو سو ملین ٹن بھوسہ حاصل ہوتا ہے۔ اور اس بھوسے سے کئی پراڈکٹس حاصل کی جا سکتی ہیں: ’’اس کا جو خلوی حصہ ہے،اس سے ہم ایتھینول بنا سکتے ہیں جو فیول میں استعمال ہو سکتا ہے۔ اسی حصے سے ہم بائیو گیس بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں دس فیصد سیلیکاsilica ہوتا ہے اور یہ ہمارے الیکٹرانکس میں استعمال ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جو ٹھوس تلچھٹ ہمارے پاس بچتی ہے اسے بائیو چارچ کہا جاتا ہے اور یہ دو طرح سے ہمارے لیے کار آمد ہے۔ ایک تو اگر ہم اس کو اپنی زرعی مٹی میں شامل کر لیں تو اس سے زرعی مٹی کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے جس کے باعث اچھی فصل پیدا ہوتی ہے۔ دوسرا استعمال اس کا بطورbio absorbent کے طور پر کیا جا سکتا ہے جس سے ویسٹ واٹر یعنی صعنتوں خاص طور سے کپڑے کی صنعتوں سے نکلنے والے پانی کو ٹریٹ کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ بائیو چارچ ویسٹ واٹر میں شامل ڈائی اور بھاری دھاتوں کو علیحدہ یا جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر سیف الرحمان کے مطابق گرین ٹیلنٹ ایوارڈ حاصل کرنے والے سائنسدانوں کو جرمنی میں تحقیق کا موقع بھی ملے گا جہاں وہ جدید سہولیات سے فائدہ اٹھا سکیں گے: ’’جو ریسرچ فیسیلٹی ہمارے پاس پاکستان میں نہیں ہے، وہ میں جرمنی جا کر استعمال کر سکتا ہوں۔ اس کے علاوہ ہم باہمی تعاون اور ٹیکنالوجی اور سہولیات کے استعمال کے ذریعے باہمی تعاون قائم کر سکتے ہیں۔‘‘

2014ء کے گرین ٹیلنٹ ایوارڈز دینے کی تقریب سات نومبر کو جرمن دارالحکومت برلن میں منعقد ہوئی جس میں جرمنی کی تعلیم اور تحقیق کی وزیر یوہانا وانکا نے 25 سائنسدانوں کو اس ایوارڈ سے نوازا۔