1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بابری مسجد تنازعہ: ثالثی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ محفوظ

جاوید اختر، نئی دہلی
6 مارچ 2019

بھارت میں سیاسی، سماجی، اقتصادی اور زندگی کے دیگر شعبوں ميں غیر معمولی اثرات مرتب کرنے والے اور نصف دہائی سے زائد پرانے بابری مسجد تنازعے کو ثالثی کے ذریعے حل کرنے کے ليے سپریم کورٹ نے چھ مارچ کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔

https://p.dw.com/p/3EXHz
Indien Babri Masjid Moschee
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kanojia

بھارتی عدالت عظمیٰ کی جانب سے کہا گيا ہے کہ اگر فریقین اس انتہائی حساس معاملے کو مصالحت کے ذريعے حل کرنے میں ناکام رہے، تو عدالت اپنا فیصلہ سنانے کے ليے تیار ہے۔

سپریم کورٹ میں زیر سماعت بابری مسجد اور رام مندر اراضی کے معاملے میں فریقين کی مجموعی تعداد چودہ ہے۔ مسلم فریقین نے ثالثی کی مخالفت نہیں کی تاہم ہندو فریقین نے ثالثی کے ذریعے تنازعے کا حل نکالنے سے انکار کر دیا ہے، جس پر عدالت عظمیٰ نے حیرت کا اظہار کیا ہے۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی صدارت ميں پانچ رکنی بينچ کی جانب سے کہا گيا، ’’ہم حیران ہیں کہ متبادل راستہ آزمائے بغیر ثالثی کی تجویز کیوں مسترد کی جا رہی ہے۔ ہم ماضی کی بات نہیں کر سکتے۔ بابر نے کیا کیا تھا؟ وہاں مسجد تھی یا مندرتھا؟ ماضی پر ہمارا زور نہیں ہے لیکن ہم بہتر مستقل کی کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔‘‘ ججوں نے مزید کہا، ’’ہمیں اس تنازعے کی شدت کا احساس ہے اور مصالحت کے ذریعہ اسے حل کرنے کے نتائج سے بھی واقف ہیں۔‘‘

عدالتی سماعت کے دوران ہندو فریقین کی دلیل تھی، ’’مان لیجيے کہ تمام فریقین میں معاہدہ ہو بھی گیا، تب بھی سماج اسے کیسے تسلیم کرے گا؟ ثالثی کا کوئی مطلب ہی نہیں ہوگا کیوں کہ ہندو اسے ایک جذباتی اور اعتقاد کا معاملہ سمجھتے ہیں۔‘‘

اس پر ایک فاضل جج نے ہندو فریقین سے مخاطب ہو کر کہا، ’’آپ پہلے سے ہی کوئی فیصلہ کیوں کر رہے ہیں۔ ہم مصالحت کی کوشش کر رہے ہیں۔ ماضی پر ہمارا کا کوئی زور نہیں تھا لیکن ہم بہتر مستقبل کی کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔‘‘ سپریم کورٹ کا مزید کہنا تھا، ’’یہ صرف زمین کا تنازعہ نہیں ہے۔ یہ جذبات سے وابستہ معاملہ ہے، یہ زخم بھرنے کا معاملہ بھی ہے۔ اس ليے عدالت چاہتی ہے کہ باہمی بات چیت سے اس کا حل نکلے۔‘‘

اس معاملے میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیم ’آل انڈیا بابری مسجد ایکشن کمیٹی‘ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے تازہ عدالتی کارروائی کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’اراضی کے تنازعے پر چھ مارچ کو بحث ہوئی۔ فریقِ مخالف نے کہا کہ مصالحت میں تکنیکی دشواریاں ہیں۔ اس پر ہمارے وکیل نے کہا کہ تکنیکی دشواریاں تو ضرور ہیں لیکن اگر سپریم کورٹ چاہے تو مصالحت ہوسکتی ہے۔ اس پرکافی طویل بحث کے بعد سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔ البتہ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر دونوں فریق کسی ثالث کا نام تجویز کرنا چاہیں تو تجویز کرسکتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے اس تنازعے میں مسلمانوں کے متفقہ موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا، ’’ہم ثالثی کے ذریعے مصالحت کے ليے تیار ہیں۔ لیکن ہم نے یہ بات کہی ہے کہ ثالثی عدالت عظمیٰ کی نگرانی میں اور بند کمرے میں ہو۔‘‘

سپریم کورٹ نے اس درخواست کو تسلیم کر لیا ہے اور کہا ہے کہ اس معاملے میں عدالتی کارروائی کی میڈیا رپورٹنگ پر پوری پابندی ہونی چاہيے۔ البتہ عدالت نے واضح کیا کہ یہ کوئی حکم يا فيصلہ نہيں بلکہ مشورہ ہے۔

ڈی ڈبليو نے ڈاکٹر قاسم رسول الیاس سے پوچھا کہ عدالت اس تنازعے کو خود حل کرنے کے بجائے مصالحت پر اتنا زور کیوں دے رہی ہے، تو انہوں نے جواب ديا، ’’عدالت نے کہا تھا کہ یہ بہت حساس معاملہ ہے اور اگر باہمی سمجھوتے کے بغير کسی فریق کے خلاف فیصلہ ہوا، تو اس کے نتائج غير واضح ہيں۔ لیکن عدالت واضح کر چکی ہے کہ اگر مصالحت سے معاملہ حل نہ ہوسکا تو سپریم کورٹ بہر حال اپنا فیصلہ سنا دے گی۔‘‘ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے ترجمان کا خیال ہے کہ سن 1949 سے جاری اس تنازعے کا حل مستقبل قریب میں دکھائی نہیں دیتا۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’اصل معاملے پر تو سپریم کورٹ میں بحث شروع ہی نہیں ہوئی۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے جو فیصلہ سنایا تھا پہلے اس پر بحث ہوگی۔ اس مقدمے میں چودہ فریق ہیں۔ لہذا بہت جلد فیصلہ آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔‘‘

بابری مسجد کو انتہا پسند ہندوؤں نے چھ دسمبر سن 1992 کو منہدم کر دیا تھا
بابری مسجد کو انتہا پسند ہندوؤں نے چھ دسمبر سن 1992 کو منہدم کر دیا تھاتصویر: Getty Images/AFP/D .E. Curran


خیال رہے کہ سن 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے ایودھیا کی 2.77 ایکٹر متنازعہ اراضی کو صرف دو فریقين ہندوؤں اور مسلمانوں میں تقسیم کرنے کے بجائے، مندر میں رکھے رام للا کی مورتی کو بھی برابر کا حصہ دار قرار دیا تھا۔ اس فیصلے پر صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں حیرت کا اظہار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی تھی۔
خیال رہے کہ موجودہ دور ميں بھارتی صوبے اتر پردیش کے ایودھیا میں سولہویں صدی کے دوران مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے سپہ سالار میر عبدالباقی بیگ کے ذریعے سن 1528میں تعمیر کی گئی بابری مسجد کو انتہا پسند ہندوؤں نے چھ دسمبر سن 1992 کو منہدم کر دیا تھا۔ اس کے بعد بھارت ميں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے تھے، جن میں ہزاروں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ہندو تنظیمیں منہدم بابری مسجد کی جگہ ایک عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کی مسلسل کوشش کر رہی ہیں۔ یہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابی ایجنڈے کا حصہ بھی ہے اور سابقہ الیکشن میں بی جے پی رام مندر کی تعمیر کے وعدے پر ہندوؤں کے بڑے طبقے کا ووٹ حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید