1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بارہ سالہ زہرا کو پاکستان پہنچا کر اس کی جبری شادی کر دی گئی

شمشیر حیدر حوالہ: ٹاگس اشپیگل، جرمنی
4 دسمبر 2019

ہر برس صرف جرمن دارالحکومت برلن میں ہی ایسے سینکڑوں واقعات سامنے آتے ہیں، جن میں لڑکیوں کے اہل خانہ ان کی زبردستی شادیاں کرا دیتے ہیں۔ پاکستانی نژاد زہرا بھی انہی میں سے ایک ہے۔

https://p.dw.com/p/3UDO7
Symbolbild- Kinderehe
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler

دسمبر 2018 کی ایک شام زہرا جب برلن کے ایئر پورٹ سے گاڑی میں سوار ہو کر اپنی ایک نئی رہائش گاہ کی جانب محو سفر تھی، تو اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ چھ برس بعد پاکستان سے نکلنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔

تب وہ محض بارہ سال کی تھی

زہرا (حقیقی شناخت مخفی رکھی گئی ہے) کو اس کے والدین نے پاکستان پہنچایا اور بعد ازاں اس کی جبری شادی کر دی۔ چھ سال بعد پاکستان سے فرار ہو کر جرمنی پہنچنے والی زہرا کی کہانی جرمن اخبار 'ٹاگَیس اشپیگل‘ نے شائع کی ہے۔

زہرا نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ اس کے والدین کا تعلق پاکستان سے ہے اور وہ جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں مقیم ہیں۔ جب اس کے والدین جرمنی آئے، تو زہرا کی عمر محض تین برس تھی۔ زہرا کے تین چھوٹے بھائی بھی ہیں۔

بارہ برس کی عمر میں فروری کی ایک شام زہرا اسکول سے گھر لوٹی تو اس کی والدہ نے اسے بتایا کہ انہیں رشتہ داروں سے ملنے دو ہفتوں کے لیے پاکستان جانا ہے۔ زہرا کے اسکول میں چھٹیاں نہیں تھیں، اس نے والدین سے پوچھا کہ وہ چھٹیوں کے دوران کیوں نہیں جا سکتے تو اسے بتایا گیا کہ تب ہوائی جہاز کے ٹکٹ بہت مہنگے ہو جاتے ہیں۔

کم عمری کی شادیاں: جرمن حکام کے لیے ایک بڑا مسئلہ

یوں یہ خاندان پاکستان روانہ ہو گیا۔ زہرا کی ایک آنٹی اسلام آباد سے دو سو کلومیٹر دور ایک پاکستانی شہر (جس کا نام مخفی رکھا گیا ہے) میں رہتی ہیں۔ وہ سب انہی کے گھر ٹھہرے۔ پھر ایک روز زہرا کے والدین اس کے بھائیوں کو ساتھ لے کر جرمنی لوٹ گئے لیکن زہرا کو پاکستان ہی میں چھوڑ دیا گیا۔

ٹاگیس اشپیگل سے گفتگو کرتے ہوئے زہرا نے بتایا کہ اس سے اس کے دونوں پاسپورٹ اور فون بھی لے لیے گئے تھے۔ اس کے مطابق آنٹی کے گھر میں اسے صبح سویرے اٹھ کر گھر والوں کے لیے ناشتہ بنانا پڑتا تھا اور اس سے سارا دن گھر کی صفائی کرائی جاتی تھی۔ فارغ وقت میں اسے ٹی وی دیکھنے کی اجازت تھی۔

جرمنی میں کم عمری کی شادیوں پر پابندی

اس نے بتایا کہ آنٹی اسے گھر سے نہیں نکلنے دیتی تھیں اور کھڑکی کے قریب کھڑے ہونے پر بھی آنٹی اس پر الزام لگاتی تھیں کہ وہ وہاں کھڑی ہو کر لڑکوں کو دیکھتی ہے۔

والد کی طرف سے قتل کی دھمکی

اسی طرح کئی برس گزر گئے۔ والدین سے فون پر بات کرائی جاتی تھی اور وہ اسے دلاسہ دیتے تھے کہ وہ اسے جلد واپس جرمنی لے آئیں گے۔ لیکن چار برس گزر گئے، زہرا سولہ برس کی ہو گئی مگر نہ تو والدین پاکستان گئے اور نہ ہی وہ واپس جرمنی لوٹ سکی۔

پھر ایک دن اس کے والد پاکستان آ گئے۔ تب اسے معلوم ہوا کہ اسے پاکستان لانا اور وہیں رکنے پر مجبور کرنا اس کے والدین کی ایک باقاعدہ منصوبہ بندی تھی۔

زہرا بتاتی ہے کہ اس کے والد کا رویہ بالکل بدل چکا تھا۔ انہوں نے زہرا کو بتایا کہ اس کی شادی اسپین میں مقیم اس کے کزن سے کی جا رہی ہے۔ کزن اسی آنٹی کا بیٹا تھا اور زہرا سے سات برس بڑا تھا۔ زہرا اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔

برطانوی لڑکیوں کی جبری شادیوں کے خلاف اب خصوصی ٹیمیں تعینات

انکار کرنے پر اس کے والد نے اسے مارا پیٹا، گالم گلوچ کی اور جان سے مار دینے کی دھمکیاں بھی دیں۔ مار پیٹ سے تنگ آ کر زہرا نے سوچا کہ کزن سے شادی کر کے وہ کم از کم پاکستان سے تو نکل سکے گی۔

یوں ایک روز مولوی صاحب آئے اور ٹیلی فون پر اس کا نکاح اس کے کزن سے کر دیا گیا۔ لیکن اگلے ہی روز اس کے والد واپس جرمنی چلے گئے۔

زبردستی کی شادی کا شکار ہونے والی لڑکیوں میں زہرا تنہا نہیں۔ سن 2017 کے اعداد و شمار کے مطابق صرف برلن میں جبری شادیوں کے 570 واقعات رپورٹ کیے گئے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کے مطابق حقیقی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

'یہ واقعی تم ہو، زہرا! مجھے یقین نہیں آ رہا‘

زہرا چھوٹی تھی، اس نے آنٹی کے گھر سے فرار ہونے کی کبھی کوشش نہ کی۔ وہ بتاتی ہے کہ اس کے پاس نہ تو پیسے تھے اور نہ ہی وہ کسی کو جانتی تھی۔

شادی کے بعد اس کی آنٹی اس کی ساس بن چکی تھیں اور وہ زہرا پر مزید سختی کرنا شروع ہو گئی تھیں۔

ایک روز زہرا کو آنٹی کا ایک پرانا فون ملا، جو انہوں نے اپنی الماری میں چھپا رکھا تھا۔ اس میں کوئی سم نہیں تھی لیکن وائی فائی چل رہا تھا۔ زہرا نے فیس بُک پر جعلی نام سے ایک اکاؤنٹ بنایا اور اپنی ایک بچپن کی دوست ڈینیس سے رابطہ کیا۔

ڈینیس بتاتی ہے کہ اسے یقین نہیں آیا کہ اتنے برسوں بعد واقعی زہرا اس سے رابطہ کر رہی تھی۔

ڈینیس نے ٹاگیس اشپیگل کو بتایا کہ زہرا کے جانے کے بعد اس نے کئی مرتبہ اس کی والدہ سے اس کی واپسی کے بارے میں پوچھا، لیکن وہ ہمیشہ بات ٹال دیتی تھیں۔

زہرا کے حالات جان کر ڈینیس نے جبری شادیوں کے خلاف سرگرم 'پاپاٹیا‘ نامی ایک تنظیم سے رابطہ کیا۔ اس تنظیم کی رکن ایفا کائزر نے ڈینیس کو بتایا کہ زہرا کو خود اس تنظیم سے رابطہ کرنا پڑے گا۔

'مجھے ریپ ہو جانے کا ڈر تھا‘

زہرا نے   www.verschleppung.papatya.org ویب سائٹ پر جا کر ابتدائی معلومات فراہم کیں۔ تنظیم نے پاکستان میں جرمن سفارت خانے کو اس واقعے کے بارے میں آگاہ کیا۔

سفارت خانہ اسلام آباد سے دو سو کلومیٹر دور مقیم زہرا کو وہاں سے نہیں نکال سکتا تھا۔ زہرا کو خود ہی کسی طرح اسلام آباد پہنچا تھا۔ ایفا کائزر نے بتایا کہ زہرا کے پاس جرمن شہریت نہیں تھی بلکہ اس کے پاس ایک دوسرے یورپی ملک کا پاسپورٹ تھا۔

امدادی تنظیم سے رابطوں اور زہرا کے پاکستان سے نکلنے میں ایک برس لگا۔ تب سترہ سالہ زہرا گھر سے نکلنے سے بھی خوف زدہ تھی۔

’میں خوش قسمت رہی‘

ایک روز زہرا کی آنٹی نے اس کے ہاتھ میں موبائل فون دیکھ لیا۔ زہرا بھاگ کر غسل خانے میں چھپ گئی اور جلدی سے اپنا فیس بُک اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیا۔

دورازہ کھولا تو آنٹی نے اسے مارا اور اس پر الزام لگایا کہ وہ کسی لڑکے سے بات چیت کر رہی تھی۔ زہرا اپنی ساس کو اپنے فرار کے ارادے اور منصوبے سے آگاہ نہیں کرنا چاہتی تھی، اس لیے اس نے حامی بھر لی کہ وہ کسی لڑکے کے ساتھ رابطے میں تھی۔

زہرا کے بقول اس اعتراف کے بعد آنٹی اور کزن نے اسے خوب مارا اور رات گئے اسے گھر سے نکال دیا۔

زہرا کے فرار کی مزید تفصیلات اس کی شناخت افشا ہو جانے کے خدشے کے باعث جاری نہیں کی گئیں تاہم ٹاگیس اشپیگل کے مطابق پاکستانی پولیس نے اسے خواتین کے لیے مخصوص ایک دار الامان پہنچا دیا تھا۔

دو ہفتے بعد اسے جرمن سفارت خانے پہنچانے کا بندوبست ہو گیا لیکن جرمنی واپسی کے لیے اسے ابھی مزید کچھ مہینے انتظار کرنا تھا۔

تب زہرا کی عمر اٹھارہ برس سے کم تھی اور وہ اپنے تئیں نیا پاسپورٹ حاصل نہیں کر سکتی تھی۔ دو ماہ بعد جب اس کی عمر ٹھیک اٹھارہ برس ہوئی تو اسی روز اسے پاسپورٹ مل گیا اور وہ جرمنی واپس روانہ ہو گئی۔

'زہرا وہاں پہنچ گئی، جہاں اسے ہونا چاہیے‘

جرمنی واپس آ کر وہ اب برلن میں رہائش پذیر ہے اور اپنی تعلیم مکمل کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ ٹاگیس اشپیگل کے مطابق زہرا نے اس دوران اپنے والدین سے رابطہ نہیں کیا۔

وہ کہتی ہے کہ اسے اپنے والدین اور بھائیوں کی یاد تو آتی ہے، لیکن اس کے ساتھ اس کے والدین نے جو کچھ کیا، اس کے بعد وہ اب ان سے رابطہ نہیں رکھنا چاہتی۔ جرمنی میں نکاح کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، اس لیے اُس کی شادی کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔

ڈینیس بتاتی ہے کہ زہرا کے جرمنی آ جانے کے بعد ایک روز اس کی والدہ سڑک پر اسے ملیں اور انہوں نے ڈینیس سے پوچھا کہ زہرا کہاں ہے۔ ڈینیس نے جواب دیا، ''زہرا وہیں ہے، جہاں اسے ہونا چاہیے۔‘‘

غربت اور وٹے سٹے کی شادی، فیصل آباد کی ناصرہ کا المیہ