1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحر ہند پر اجارہ داری، بھارت اور چین کی مخفی جدوجہد

عابد حسین20 ستمبر 2014

چینی صدر شی جِن پِنگ کے بھارتی دورے کو دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ضرور قرار دیا جا رہا ہے لیکن دونوں کے درمیان عسکری مسابقت کی دوڑ میں کمی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔

https://p.dw.com/p/1DGCj
بھارت کا طیارہ بردار جنگی بحری جہاز وکرانتتصویر: Reuters

چینی صدر شی جِن پِنگ کے بھارتی دورے کے دوران اگر ایک جانب وہ نریندر مودی کی سالگرہ کے موقع پر ہونے والے پرائیویٹ عیشائیے میں اُن کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کر رہے تھے تو دوسری جانب ایک ہزار چینی فوجیوں کی بھارت کے سرحدی علاقہ مشرقی لداخ میں واقع چومار میں پانچ کلومیٹر تک اندر داخل ہونے کی خبر نے مجموعی صورت حال کو بظاہر پیچیدہ بنا دیا تھا۔ بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق ریاست گجرات میں دریائے صبراماتی کے کنارے پر نہرو جیکٹ زیب تن کیے شی جِن پِنگ اور نریندر مودی کی سنجیدہ گفتگو بھی دنوں ملکوں کی عسکری مقابلے بازی میں کمی لانے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔

USA Australien Malaysia Suche nach Flug MH370 geht weiter
بحرِ ہند کی صورت حال پر امریکی نگرانی بھی جاری ہےتصویر: Reuters

چینی صدر کے بھارتی دورے کے دوران بحرہند کے بارے میں بھارتی خدشات قطعاً سامنے نہیں آئے۔ بحرِ ہند میں چینی سرگرمیوں پر بھارت گہری تشویش رکھتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں بحرہند بارے بھارتی تشویش غالباً چین کے اربوں ڈالر کے معاہدے تلے دب کر رہ گئی ہے۔ دوسری جانب چین کی جانب سے بحیرہ جنوبی چین اور بحیرہ مشرقی چین میں بحری سرگرمیوں میں اضافے نے علاقائی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔ بحر ہند پر چین اور بھارت کی خاموش سرگرمیوں کا امریکا اور جاپان مسلسل جائزہ لے رہے ہیں۔

بحرہند سے گزرنے والے بحری جہازوں کے اعدادوشمار کے مطابق چین کے لیے 80 فیصد ٹینکر اور کارگو بحری جہاز گزرتے ہیں جبکہ بھارت کے لیے ایسے ہی بحری جہازوں کی شرح 65 اور جاپان کے لیے 60 فیصد ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر بحرہند میں کوئی کشیدگی جنم لیتی ہے تو براعظم ایشیا کے تین بڑے اقتصادی ملکوں کی معیشت کو سنگین خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ چین بحر ہند میں میانمار سے لے کر پاکستان تک بندرگاہوں کی تعمیر و ترقی میں عملی طور پر شریک ہے۔

Die chinesische Fregatte Yancheng legt in Limassol an
چین سمندری سلک روٹ کے تصور کو اجاگر کر رہا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

بھارتی سفارتکار کنول سیبل کے مطابق بھارت کے لیے اربوں ڈالر کے پُرکشش مالی سمجھوتے حقیقت میں ٹروجن کے گھوڑے کی مانند ہے اور اِس کی آڑ میں بیجنگ حکومت اپنی سمندری اجارہ داری کا عمل جاری رکھنے کی کوشش کرے گا۔ سابق بھارتی سفارتکار کنول سیبل کا کہنا ہے کہ چین ہر ممکن طریقے سے بحر ہند میں فعال کردار کا متمنی ہے اور اسی باعث وہ کئی ملکوں کے ساتھ گہرے سفارتی عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

چینی صدر کے سمندری سِلک رُوٹ کی بازگشت بھارت کے سفارتی و عسکری حلقوں میں سنائی دے رہی ہے۔ چین اپنے صدر کے اِس سِلک رُوٹ کے تصور تلے انٹرنیشنل تعاون کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ بھارت کے دورے سے قبل مالدیپ اور سری لنکا کے دورے بھی اسی انٹرنیشنل کوآپریشن کا حصہ خیال کیے جا رہے ہیں۔ چین اِس وقت سری لنکا میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ سمندری سِلک روٹ کی گُونج چینی صدر کے مالدیپ اور سری لنکا کے دوروں کے دوران بھی سنی گئی۔ چینی صدر نے اسے باہمی تعاون کا تسلسل قرار دیا۔