1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برسلز میں یورپی یونین کی تحفظ ماحول کانفرنس

11 مارچ 2007

یورپی یونین کے برسلز منعقدہ سربراہ اجلاس میں عالمی درج حرارت میں اضافے کو روکنے کے لئے ایک انتہائی اہم سمجھوتہ ہوا ہے جس کے تحت سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی اور ماحولیاتی اعتبار سے محفوظ زرائع سے توانائی حاصل کرنے کا عہد کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/DYHL
تصویر: AP

وفاقی جرمن چانسلر Angela Merkel کے زیر قیادت طے کردہ اس سمجھوتے کی تفصیلات کے مطابق یورپی یونین کے تمام رکن ملکوں نے سن 2020 تک سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں 20 فیصد کمی کرنے اور توانائی کی ضرورتوں کا 20 فیصد قابل تجدید زرائع سے حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مزید یہ کہ اسی تاریخ تک 10 فیصد موٹر گاڑیوں کو نباتاتی ایندھن پر منتقل کیا جائے گا۔

اس سمجھوتے میں ایک متنازعہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے اور وہ یہ کہ سبز مکانی گیسوں کے اخراج کا مقابلہ کرنے میں ایٹمی توانائی قابل زکر کردار ادا کرسکتی ہے۔ حالانکہ اس نقطے پر رکن ملکوں میں ایتدائی طور پر کافی اختلافات سامنے آئے تھے۔ اس سمجھوتے کی ایک اہمیت یہ ہے کہ اس کے زریعے یورپ تحفظ ماحول کے لئے جاری عالمی کوششوں میں سب سے فعال حیثیت حاصل کر لے گا۔ چانسلر Merkel نے کہا کہ اب ہم G8 تنظیم کو بتا سکیں گے کہ یورپ نے ماحولیات کی حفاظت کے لئے ایک حقیقی قدم اٹھایا ہے اور یہ کہ عالمی درجہ حرارات میں 2 فیصد کمی کرنے کا ہدف حاصل کرنا اب بھی ممکن ہے۔
یورپی کمیشن کے صدر خوزے Manuel Barroso نے ان اقدامات کو موسمیاتی تبدیلیوں اور توانائی کی سیکیورٹی کے معاملات میں اب تک کی سب سے پر زور ادارہ جاتی کاوش قرار دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے ڈائریکٹر Achim Steiner کا کہنا ہے کہ اس یورپی سمجھوتے سے اب دنیا کی تمام تر توجہ امریکہ پر مرکوز ہو جائے گی جو کہ سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں سر فہرست ہے۔ تاہم تحفظ ماحول کی بین الاقوامی تنظیم Friends of the Earth نے ایٹمی ایندھن کے زکر پر گہری تشوش ظاہر کی ہے۔

دراصل یہ طے کردہ مسودہ رکن ملکوں کے درمیان مفاہمتی سمجھوتہ ہے۔ ایک جانب یورپ کے وہ ترقی یافتہ ممالک ہیں جو صاف اور محفوظ توانائی کے اطلاق کو لازمی بنانے کا مطالبہ کر رہے تھے اور دوسری جانب مشرقی یورپی ریاستوں کا مؤقف تھا کہ ان کے پاس یہ اہداف حاصل کرنے کے لئے درکار مالی وسائل نہیں ہیں۔ اس خلاءکو پورا کرنے کے لئے معاہدے میں اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہر ملک کے لئے الگ الگ اہداف طے کئے جائیں گے لیکن اس طرح کہ مجموعی طور پر معاہدے کی روح متاثر نہ ہو۔ یعنی کم ترقی یافتہ ملکوں کی جانب سے کمی کو دیگر صنعتی ممالک پورا کریں گے۔ لیکن ایک انتہائی مشکل سوال کا جواب تلاش کیا جانا باقی ہے۔ وہ یہ کہ قابل تجدید توانائی کی فراہمی کا کس ملک پر کتنا بوجھ ڈالا جائے۔ یہ انتہائی وقت طلب اور تنازعات کا حمل کام ہے جو کہ یورپی کمیشن کے سپرد کیا گیا ہے۔ خیال ہے کہ تکنیکی تفصیلات طے کرنے میں ابھی مزید چند ماہ لگیں گے۔