1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ کا نیا وزیر داخلہ پاکستانی نژاد ساجد جاوید

30 اپریل 2018

برطانوی وزیراعظم ٹیریزا مے نے پاکستانی نژاد مسلمان ساجد جاوید کو ملک کا نیا وزیر داخلہ مقرر کر دیا ہے۔ جاوید کو مستعفی ہونے والی امبر رُڈ کی جگہ یہ ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2wuW7
Großbritannien Sajid Javid neuer Innenminister
تصویر: picture-alliance/empics

امیگریشن اسکینڈل کی وجہ سے امبر اتوار کو مستعفی ہو گئی تھیں۔ کیریبیئن سے تعلق رکھنے والے اور کئی نسلوں سے برطانیہ میں مقیم افراد کو ’غیرقانونی تارکین وطن‘ کہنے کے معاملے پر وزیرداخلہ امبر رُڈ کو مستعفی ہونا پڑا تھا، اس تناظر میں وزیراعظم ٹیریزا مے کو بھی شدید داخلی تنقید کا سامنا تھا۔

امیگریشن اسکینڈل، برطانوی وزیرِ داخلہ مستعفی

بریگزٹ کے بعد برطانیہ میں تارکین وطن کا کیا بنے گا؟

یمنی جنگ میں یورپی ممالک مداخلت سے کتراتے کیوں ہیں؟

جاوید کاروبار کے شعبے کے وزیر کے بہ طور خدمات انجام دے چکے ہیں اور برطانیہ کے یورپی یونین کا حصہ رہنے کے حامی ہیں۔ تاہم وہ ایک ایسے موقع پر وزارت داخلہ کا قلم دان سنبھال رہے ہیں، جب برطانیہ میں غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔

ان کے یہ عہدہ سنبھالنے سے ٹیریزا مے کی کابینہ میں یورپی یونین سے متعلق موجود عدم توازن بھی تبدیل ہو گا۔

اس سے قبل ایک طویل عرصے سے برطانیہ میں مقیم کیریبیئن خطے سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو غلطی سے 'غیرقانونی تارکین وطن‘ کہنے پر امبر رُڈ ، جو داخلی طور پر شدید تنقید کا سامنا کر رہی تھیں، اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہو گئیں۔ امبر رُڈ نے ابتدا میں اپنے عہدے پر رہنے کا اعلان کیا تھا، تاہم چند ہی گھنٹوں بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔

برطانوی وزیراعظم ٹیریزا مے کے دفتر سے اتوار کے روز جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امبر رُڈ کا استعفیٰ منظور کر لیا گیا ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ کی تعمیر نو کے لیے کیریبیئن خطے سے تعلق رکھنے والے افراد کو برطانیہ لایا گیا تھا، تاہم برطانوی حکومت کی جانب سے اب ان افراد کی تیسری یا چوتھی نسل کو 'غیرقانونی تارکین وطن‘ کہنے پر حالیہ کچھ عرصے میں برطانوی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا تھا۔

اس سلسلے میں برطانوی حکومت کو اور زیادہ سخت تنقید کا سامنا اس وقت کرنا پڑا، جب برطانوی اخبار دا گارڈیئن نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ ان میں سے بعض تارکین وطن کو برطانیہ میں طبی سہولیات تک رسائی نہیں دی گئی اور دھمکایا گیا کہ وہ برطانیہ میں اپنے 'جائز قیام‘ سے متعلق دستاویزات لے کر آئیں، دوسری صورت میں انہیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔

اپوزیشن رہنما ڈیان ایبٹ نے رُڈ کے استعفے کے بعد کہا، ''یہ استعفیٰ حیرت کی بات نہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ اسے اتنا وقت کیوں لگا۔ اس معاملے کی اصل منصوبہ ساز وزیراعظم مے اب سامنے آئیں اور عوام کو مکمل وضاحت دیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے اس انداز کی ناقابل بیان صورت حال کیسے پیدا ہوئی۔‘‘

اپوزیشن لیبر پارٹی کی جانب سے رُڈ سے بار بار کہا جا رہا تھا کہ وہ مستعفی ہو جائیں۔ پیر کے روز اسی تناظر میں لیبر پارٹی برطانوی پارلیمان میں اپنا باقاعدہ ردعمل ظاہر کرے گی۔ حالیہ کچھ دنوں میں رُڈ اور وزیراعظم مے، اس معاملے پر کئی مرتبہ معذرت کر چکی ہیں۔

جمعرات کے روز برطانوی اخبار 'دی وائس‘ کے لیے اپنے ایک مراسلے میں ٹیریزا مے نے کہا تھا، ''ہم نے آپ کو مایوس کیا، اس کے لیے ہم دلی طور پر معذرت خواہ ہیں۔ مگر اس معاملے میں صرف معذرت کافی نہیں۔ ہمیں اس تاریخی خرابی کو درست کرنا ہے۔‘‘

ع ت ا/ لف الف