1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافغانستان

برقعہ لازم قرار دينے پر افغان خواتين برہمی اور خوف ميں مبتلا

9 مئی 2022

افغان طالبان کے عورتوں کے ليے برقعہ لازمی قرار دينے کے فيصلے پر کابل ميں کئی خواتين برہم دکھائی ديتی ہيں۔ دريں اثناء تجزيہ کاروں کے مطابق يہ طالبان ميں تقسيم کی واضح نشانی ہے۔

https://p.dw.com/p/4B1TS
Afghanistan Taliban l Schaufensterpuppe
تصویر: Allauddin Khan/AP/picture alliance

طالبان نے افغانستان ميں تمام خواتين کے ليے برقعہ لازمی قرار دے ديا ہے۔ ملک کے بڑے شہروں ميں خواتين اس فيصلے سے نالاں دکھائی ديتی ہيں۔ انہی ميں سے ايک عروسہ بھی ہيں۔ وہ کابل ميں رياضی کی استانی ہيں۔ اتوار کو وہ اپنی ايک سہيلی کے ساتھ شاپنگ کرنے نکليں، تو انہوں نے صرف چادر لی۔ طالبان کی ہدايت پر برقعہ کر کے اپنے چہرے کو مکمل طور پر نہيں ڈھکا۔ عروسہ طالبان کے فيصلے پر برہم بھی ہيں اور خوف زدہ بھی۔ بازار ميں پھرتے وقت ان کی نگاہيں محافظوں کو ڈھونڈتی رہيں کہ اگر طالبان کے کسی محافظ نے انہيں اس حالت ميں ديکھ ليا، تو اس کا رد عمل کيا ہو گا۔

افغانستان ميں تمام عورتوں کے ليے برقعہ پہننا لازمی ہے، طالبان کا حکم

ہرات: خواتین کے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے پر پابندی

خواتین افغان ایتھلیٹس، اپنے ہی ملک میں غیر محفوظ

دارالحکومت کابل ميں اتوار کو بيشتر خواتين نے حجاب کيا اور روايتی لباس پہنا، جس ميں سر پر اسکارف اور ايک لمبی قميض شامل ہوتی ہے۔ مگر چہرہ ڈھکی چند ہی خواتين دکھائی ديں۔ شبانا نامی ايک خاتون اپنے خيالات کچھ يوں بيان کيے، ''افغانستان ميں خواتين حجاب بھی کرتی ہيں اور برقعہ بھی پہنتی ہيں۔ مگر طالبان کے اس فيصلے کا مقصد عوتوں کو غائب کر دينا ہے، کہ بس وہ دکھائی نہ ديں۔‘‘

عروسہ کا کہنا ہے کہ طالبان عورتوں کو مجبور کر رہے ہيں کہ وہ ملک چھوڑ ديں۔ ''ميں يہاں کيوں رکوں، اگر وہ ہميں انسانی حقوق تک دينے کو تيار نہيں۔ ہم بھی انسان ہيں۔‘‘

پروين نامی ايک اور خاتون نے کہا، ''ہم قيد ميں رہنا نہيں چاہتے۔‘‘

افغان لڑکیوں کی ٹیم: ’فٹ بال کھیلنا آزادی کےمانند ہے‘

افغان طالبان کا حکم، سب عورتوں کے ليے برقعہ لازم

افغان طالبان کے سپريم ليڈر ہیبت اللہ اخوند زادہ کی جانب سے ہفتہ سات مئی کے روز ايک حکم نامہ جاری کيا گيا ہے، جس کے تحت ملک ميں تمام خواتین کے ليے برقعہ پہننا لازمی ہے۔ اس کے مسودے کے تحت، 'عورتوں کو چادر اوڑھنی چاہيے، جو روايات کے مطابق ہے اور احترام کا تقاضہ کرتی ہے۔‘ اس حکم نامے ميں مزيد لکھا ہے، ''جو لڑکياں کم عمر ہيں، انہيں آنکھوں کے سوا اپنا چہرہ مکمل طور پر ڈھکنا لازمی ہے، جيسا کہ شريعہ ميں بيان کيا گيا ہے۔ يوں نامحرم مردوں سے ملتے وقت ان مردوں کے ذہنوں ميں غلط خيالات نہيں آئيں گے۔‘‘

طالبان کی متعلقہ وزارت نے حکم نامے کی تفصيلات بيان کرتے وقت کہا کہ اس پر عملدرآمد نا کرنے کی صورت ميں خواتين کے والد يا قريبی رشتہ دار کو پکڑا اور قيد کيا جا سکتا ہے۔ اگر وہ سرکاری ملازمت کرتے ہيں، تو انہيں نوکری سے فارغ بھی کيا جا سکتا ہے۔ يہ طالبان کی جانب سے عورتوں کے حوالے سے اب تک کا سخت ترين قدم ہے۔

طالبان کی اس سے قبل سن 1996 سے لے کر سن 2001 تک افغانستان ميں حکومت تھی۔ اس دور ميں بھی سخت اسلامی قوانين نافذ تھے۔ افغانستان ميں موجودہ دور ميں اکثريتی خواتين مذہبی عقائد کی بنياد پر سر پر اسکارف پہنتی ہيں اور پردہ بھی کرتی ہيں۔ مگر بڑے شہروں ميں عورتيں چہروں کو نہيں چھپاتيں۔

طالبان ميں تقسيم

طالبان دو دھڑروں میں منقسم ہيں۔ ايک طرف انتہائی سخت گير نظريات کا حامل گروپ ہے، جو سابقہ دور حکومت کے طور طريقوں کا حامی ہے۔ اور دوسری طرف مقابلتاً اعتدل پسند گروپ ہے۔ اسی تقسيم کی وجہ سے طالبان تمام دھڑوں کی نمائندہ باقاعدہ حکومت قائم نہيں کر سکے ہيں۔ بين الاقوامی برادری بھی اسی وجہ اور لڑکيوں کے حقوق کے تحفظ کو يقينی نہ بنائے جانے کی وجہ سے پيچھے ہٹی رہی ہے۔

سابقہ طور پر افغان حکومت کے مشير کے طور پر کام کرنے والے تجزيہ کار طارق فرحادی کا ماننا ہے کہ طالبان رہنما عوامی سطح پر اختلافات اس ليے نہيں لا رہے کيونکہ انہيں خوف ہے کہ ايسا کرنے سے ان کی حکومت کرنے کی صلاحيت متاثر ہو سکتی ہے۔ ''قيادت ميں کئی امور پر اختلافات ہيں مگر وہ اس سے بھی واقف ہيں کہ اگر وہ متحد نہ رہے، تو سب کچھ بکھر سکتا ہے۔‘‘ فرحادی کے مطابق يہی وجہ ہے کہ وہ سب ان فيصلوں پر بھی ايک ساتھ کھڑے ہيں جن پر اختاف رائے موجود ہے اور جن کی وجہ سے طالبان کو افغانستان اور بين لاقوامی سطح پر بھی مذمت کا سامنا ہے۔

’افغان خواتين کو اپنے حقوق کے ليے لڑنا ہو گا‘

ع س / ب ج (اے پی)