1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بریگزٹ، بھارت اور برطانیہ

18 جنوری 2019

کہا جا رہا تھا کہ یورپی یونین کو خیرباد کہنے کے بعد بھارت اور برطانیہ کے درمیان ’تجارت کا سنہرا دور‘ شروع ہو گا۔ بریگزٹ کی منظوری برطانوی پارلیمنٹ سے ہو نہیں سکی اور اس ’سنہرے دور‘ کی ابتداء میں بھی تاخیر ہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3BlZs
Indien Großbritannien Besuch von Theresa May bei Narendra Modi
تصویر: Getty Images/D. Kitwood

بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدہ ہونے سے برطانیہ کا امیج صرف براعظم یورپ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ عالمی تنشخص کا حامل ہو جائے گا۔ اس تناظر میں ’گلوبل بریٹن‘ کی ترکیب بھی میڈیا پر متعارف کرائی گئی۔ ان متحرک افراد کے مطابق یورپی یونین کے سائے نکل کر لندن حکومت اقوام عالم کے ساتھ منفرد انداز میں نئی تجارتی و سفارتی معاہدات کو تشکیل دی سکے گی۔

ایسی ہی سوچ بھارت میں بھی پائی گئی۔ وہاں بریگزٹ کے حامی یہ سوچ رکھتے تھے کہ سابق نوآبادیاتی حکمران ملک کے ساتھ بھارتی روابط کو بہت زیادہ ترقی حاصل ہونے کا ی‍قینی امکان ہے۔ مسلسل بڑھتی آبادی اور کسی حد تک معاشی افزائش کی وجہ سے اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ جلد ہی ساتویں بڑی اقتصادیات کا حامل ملک بن سکتا ہے۔ بریگزٹ کے مکمل ہونے کی صورت میں بھارت برطانیہ کے تعلقات کو خاص انداز میں دیکھا جا رہا تھا۔

Sadiq Khan Bürgermeister von London besucht Indien
لندن کے میئر صادق خان بھارتی دورے کے دوران نئی دہلی کے ایک مندر کے باہر کھڑے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/PA Wire/S. Rousseau

سن 2016 میں بھارتی مصنوعات  کی پانچویں سب سے بڑی منزل برطانیہ تھا۔ یہ مجموعی بھارتی برآمدات کا 3.3 فیصد بنتا ہے۔ بھارت سے آگے برطانیہ کے ساتھ تجارت میں امریکا، متحدہ عرب امارات، ہانگ کانگ اور چین ہیں۔ برطانیہ کو فراہم کی جانے والی بھارتی برآمدات کا حجم 8.66 بلین امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہے۔

بھارت برطانیہ بزنس کونسل کے چیف آپریٹنگ افسر کیون میک کول کا کہنا ہے کہ بظاہر بھارت اور برطانیہ کے تجارتی روابط کو احاطہ دینا قدرے مشکل ہے اور یہ اتنے مضبوط بھی نہیں جتنے خیال کیے جاتے ہیں۔ میک کول کے مطابق تجارتی تعلقات کی بنیاد دونوں ملکوں کی ایک دوسرے میں سرمایہ کاری اہم خیال کی جا سکتی ہے۔ بھارت کو برطانیہ کے بیس اہم تجارتی ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔

میک کول کا مزید کہنا ہے کہ برطانیہ اور بھارت میں سرمایہ کاری کا سلسلہ جاری رہنے کی وجہ سے تجارتی روابط کو اُس حد تک فروغ حاصل ہو نہیں پایا، جس کی پچھلے کچھ برسوں میں توقع تھی اور جس کے لیے کوششیں بھی کی گئیں۔ انہوں نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے سرمایہ کار سرمایہ کاری سے پیداوار اندرون ملک کھپانے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں برطانیہ کے مشین ساز ادارے جے سی بی کی مثال دی، جو بھارت میں ایک بڑی مارکیٹ کا حامل ہے اور اس کی تیار کردہ مشینوں کی بھارت ایک بڑی منڈی ہے۔ جے سی بی نے بھارتی شہروں فرید آباد، جے پور اور ہریانہ میں فیکٹریاں لگا رکھی ہیں۔

آرتھر سولیوان