1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں نیا حملہ، کیا سکیورٹی ناکافی تھی؟

18 جنوری 2018

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں شدت پسندوں کے دو مختلف حملوں میں دو خواتین پولیو رضاکاروں سمیت 5 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ دونوں واقعات کی ذمہ داری شدت پسند کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔

https://p.dw.com/p/2r4ro
Pakistan Anschlag auf Kirche in Quetta
تصویر: Reuters/N. Ahmed

کوئٹہ پولیس کے ایک سینئر اہلکار جاوید احمد کے مطابق شہر کے شورش زدہ علاقے سریاب پل پر دہشت گردوں نے پہلا حملہ پولیس کی ریپیڈ ریسپانس ٹیم کے اہلکاروں پر کیا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ’’آج صبح آر آر جی کے اہلکار سریاب میں معمول کے گشت پر تھے۔ یہ اہلکار جب حال میں تعمیر ہونے والے سریاب پل پر پہنچے تو ان پرعسکریت پسندوں نے گھات لگا کر اندھا دھند فائرنگ کی۔ حملے کے نتیجے میں 3 اہلکار ہلاک ہو گئے۔‘‘

جاوید احمد نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے والے عسکریت پسند وہاں پہلے سے موجود تھے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’ہم نے موقع پر کچھ عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں۔ ان بیانات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ موٹرسائیکل پر سوار افراد نے پولیس اہلکاروں پر عقبی جانب سے فائرنگ کی۔ حملے کے بعد ملزمان موقع سے فرار ہوگئے۔ گزشتہ روز بھی نواحی علاقے رئیسانی روڈ پر ٹریفک پولیس کا ایک اہلکار عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوا تھا۔‘‘

چرچ حملے کے بعد پاکستان میں سکیورٹی ہائی الرٹ

کوئٹہ میں کار بم حملہ : پانچ پولیس اہلکار، دو شہری ہلاک

کوئٹہ، فوجی ٹرک پر حملہ، متعدد افراد ہلاک

جاوید احمد کا کہنا تھا کہ کوئٹہ میں شروع ہونے والی دہشت گردی کی یہ ایک نئی لہر ہے جس میں ایک مخصوص زاویے سے سکیورٹی فورسز اور دیگر سرکاری اہلکاروں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق ٹارگٹ کلنگ کا دوسرا واقعہ ہزارگنجی کے علاقے میں پیش آیا، جہاں عسکریت پسندوں نے بریچ ٹاون میں خواتین پولیو ورکرز پر فائرنگ کی۔ اس واقعے کے نتیجے میں 2 خواتین رضا کار سکینہ اوران کی بیٹی زلیخا موقع پر ہلاک ہو گئیں۔ مقتولین کی لاشیں ضروری کارروائی کے بعد بی ایم سی ہسپتال میں لواحقین کے حوالے کر دی گئی ہیں۔

گوادر پورٹ ’ترقی کا زینہ‘



صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے فرائض میں غفلت کا مظاہرہ کرنے پر ایس ایچ او شالکوٹ مقبول گجر کو معطل کر کے ان کے خلاف تحیققات کا حکم دے دیا ہے۔ ایس ایچ او پولیس تھانہ شالکوٹ پر الزام ہے کہ انہوں نے آج ہزار گنجی میں عسکریت پسندوں کے حملے میں ہلاک ہونے والی خواتین پولیو ورکرز کو کوئی سکیورٹی فراہم نہیں کی تھی۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے آئی جی پولیس سے دونوں واقعات کی رپورٹ طلب کی ہے۔ کوئٹہ میں وزیراعلیٰ کے ترجمان کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں آئی جی پولیس کو ہدایت کی گئی ہے کہ دہشت گردی کی تازہ لہر میں ملوث عسکریت پسندوں کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے۔ پولیس اہلکاروں اور پولیو ورکرز پر حملوں کے بعد شہر میں حفاظتی انتطامات کو مزید سخت کر دیا گیا ہے۔

آج بروز جمعرات پیش آنے والے دونوں واقعات کی ذمہ داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔ اس شدت پسند تنظیم نے صوبے میں اپنے اہداف پر مزید حملوں کا بھی اعلان کیا ہے۔

دفاعی اور سکیورٹی امور کے سینئر تجزیہ کار میجر ریٹائرڈ عمر فاروق کے بقول بلوچستان میں حالیہ پرتشدد واقعات شدت پسندوں کی ایک نئی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’کوئٹہ میں دہشت گردی کی یہ جو تازہ لہر ہے اسے معمول کے دیگر پرتشدد واقعات سے ہٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آج جو واقعات پیش آئے ہیں ان کی کڑیاں بھی آپس میں ملتی ہیں کیونکہ دونوں حملے ایک ہی طرز پر کیے گئے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے لیے بلوچستان میں اپنے اہداف کو نشانہ بنانا اس لیے بھی قدرے آسان ہے کہ یہاں علحیدگی پسندی کی ایک تحریک بھی چل رہی ہے۔‘‘


عمر فاروق نے بتایا کہ شت پسند سرکاری اہلکاروں کو نشانہ بنا کر یہ ثابت کرنے کی کو شش کر رہے ہیں کہ یہاں حکومتی عمل داری کمزور ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’بلوچستان کی نئی مخلوط حکومت کے لیے یہاں قیام امن کی بحالی کے لیے ایک ٹھوس حکمت عملی تیار کرنے کی بہت ضرروت ہے۔ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے جامع اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے دنوں میں کوئٹہ میں دہشت گردی کے کئی دیگر بڑے واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’تحریک طالبان اور دیگر انتہاپسند کالعدم تنظیموں کے ارکان حملوں کے بعد شہری علاقوں میں آسانی سے روپوش ہوجاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہاں عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے بھی سنجیدہ اقدامات کیے جائیں تاکہ عوام از خود بھی امن دشمنوں کی نشاندہی کے لیے سکیورٹی اداروں کے ساتھ تعاون کرسکیں۔‘‘

پولیو کے خاتمے کی کوشش، سلمان احمد پرعزم



میجر (ر) عمر فاروق کا کہنا تھا کہ سکیورٹی اداروں پر عوامی اعتماد کی بحالی کے بغیر بلوچستان میں پائیدار امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔بلوچستان کے محکمہ داخلہ و قبائلی امور کے سینئر اہلکار پرویز ظہور کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد سکیورٹی کے لیے ایک نئی ایس او پی تیار کی ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے عمر فاروق نے کہا، ’’کوئٹہ میں عسکریت پسندوں کے عزائم ناکام بنانے کے لیے صوبائی حکومت کی ہدایت پر سکیورٹی کے لے کیے گئے تمام اقدامات کا از سرنو جائزہ لیا جا رہاہے۔ آج بروز جمعرات پولیو ورکزر پر ہونے والے حملے کے بعد پولیو ٹیمیوں کی سکیورٹی کے لیے بھی مزید موثر اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ مستقبل میں کسی دوسرے ناخوشگوار واقعے سے بروقت بچا جا سکے۔ اس وقت کوئٹہ میں چند حساس علاقوں میں مزید سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب کیے جا رہے ہیں تاکہ سکیورٹی انتظامات کا یہاں قائم کے گئے مرکزی کنٹرول روم میں بھی تسلسل کے ساتھ جائزہ لیا جا سکے۔‘‘

پرویز ظہور نے مزید بتایا کہ کوئٹہ میں تمام رہائشی علاقوں کا ڈیٹا تیار کیا جا رہا ہے اور پولیس نے بڑے پیمانے پر اس حوالے سے کام کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’رہائشی علاقوں کا ڈیٹا حاصل کر کے ہم نیشنل ایکشن پلان کے تحت اٹھائے گئے اقدامات کو ہر حوالے سے موثر بنا سکتے ہیں۔ شہر میں جو لوگ غیر قانونی طور پر مقیم ہیں، ان کے خلاف بھی فارن ایکٹ کے تحت کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ پولیس ایف سی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری پورے شہر میں حساس علاقوں میں تعینات کی گئی ہے اور اس حوالے سے وقفے وقفے سے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن بھی کیا جا رہا ہے۔‘‘

پرویز ظہور نے بتایا کے گزشتہ سال بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیو ں کے دوران شدت پسندوں کے کئی اہم ٹھکانوں کو تباہ کیا گیا تھا اور مقابلوں میں متعدد انتہائی مطلوب شدت پسند کمانڈر ہلاک ہوئے تھے۔ ادھر دوسری جانب کوئٹہ میں سکیورٹی انتطامات کے پیش نظر شہر میں تعینات ٹریفک پولیس اہلکاروں کو بھی مسلح کردیا گیا ہے اور انہیں ہدایت کی گئی ہے شہر میں ڈیوٹی کے دوران وہ سرکاری اسلحہ بھی اپنے ساتھ رکھیں۔