1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش: راشن کی تقسیم کے دوران بھگدڑ، 23 افراد ہلاک

کشور مصطفیٰ10 جولائی 2015

بنگلہ دیش میں جمعے کو راشن کی تقسیم کےدوران بھگدڑ مچ جانے کے نیتجے میں بڑی تعداد میں غریب خواتین سمیت کم از کم تیئیس افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FwBn
تصویر: Mustafiz Mamun

یہ افسوسناک واقعہ عین اُس روز پیش آیا ہے، جب مسلم دنیا کے اکثر ممالک میں رمضان المبارک کے مقدس مہینے کا جمعۃ الوداع منایا جا رہا ہے۔ پولیس ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ سے 120 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع شمالی شہر میمن سنگھ میں سینکڑوں افراد راشن تقسیم کرنے والوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہاں بھگدڑ مچ گئی۔ راشن ایک تمباکو فیکٹری کے کمپاؤنڈ میں تقسیم کیا جا رہا تھا اور جمعے کو طلوع فجر سے ہی ضرورت مند افراد کا ہجوم اس کمپاؤنڈ میں جمع ہو رہا تھا تاہم راشن کی تقسیم کے منتظمین تک پہنچنے کے لیے فیکٹری کمپاؤنڈ میں محض ایک چھوٹا سا تنگ دروازہ کھولا گیا تھا۔

سرکاری ٹیلی وژن کی خبروں کی فوٹیج میں وہ قیامت کا سا منظر دیکھا گیا جس میں راشن حاصل کرنے کی کوشش میں بڑے ہجوم میں گھُسنے کی کوشش کرنے والے افراد کے خون سے لت پت جوتے نظر آ رہے تھے۔ میمن سنگھ کے پولیس چیف معین الحق نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے کہا، ’’ہم اب تک 23 لاشیں برآمد کر سکے ہیں‘‘۔ انہوں نے اس واقعے میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 50 سے زائد بتائی ہے۔

Bangladesch Mindestens 10 Tote bei rituellem Bad in Narayangonj
بنگلہ دیش میں اکثر عوامی اجتماعات کے مختلف مواقع پر بھگدڑ مچنے سے ہلاکتوں کے واقعات سامنے آتے ہیںتصویر: picture alliance/ZUMA Press/Z. H. Chowdhury

تمباکو کی اس فیکٹری کے نزدیک قائم پولیس اسٹیشن کے ایک سینیئر آفیسر قمر الاسلام کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا قوی امکان ہے۔ اُدھر مقامی میڈیا بھی کہہ رہا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ قمرالاسلام نے اپنے بیان میں مزید کہا، ’’چند متاثرہ افراد اپنے لواحقین کی لاشیں پولیس کے جائے وقوعہ پر پہنچنے سے پہلے ہی اپنے ساتھ لے گئے تھے‘‘۔

ٹیلی وژن فوٹیج میں بہت سے متاثرین کو سائیکل رکشہ پر قریبی ہسپتال پہنچاتے ہوئے دکھایا گیا جبکہ فیکٹری کے داخلی دروازے اور کوریڈور میں متعدد افراد کو اپنے رشتے داروں کی لاشیں گود میں اُٹھائے اس دھکم پیل سے نکلنے کی کوشش میں بھی دیکھا گیا۔

’’میری بیوی اپنے اور بچوں کے لیے کچھ کپڑے حاصل کرنے کے لیے وہاں گئے تھی‘‘۔ یہ بیان ایک رکشہ چلانے والے محمد ربیعل نے ٹیلی وژن نیوز چینل سموئی کو دیا۔ اُس کا کہنا تھا، ’’مجھے کچھ نہیں پتہ کہ اب میرے بچوں کا کیا ہو گا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے وہ اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

Indien Bangladesch Kind Kinder Hunger Armut
بنگلہ دیش میں غربت کی صورتحال سنگین تر ہوتی جا رہی ہےتصویر: AP

ایک عینی شاہد نے ویب سائیٹ ’بی ڈی نیوز 24‘ کو بتایا کہ بھگدڑ اُس وقت مچی، جب راشن کے لیے ہجوم میں سے گزرنے کی کوشش کرنے والے بہت سے افراد میں بحث و تکرار شروع ہو گئی اور وہ باہم دست و گریباں ہو گئے۔

ایک گمنام عینی شاہد کا کہنا تھا، ’’جیسے ہی فیکٹری کا دروازہ کُھلا، ہر کوئی داخل ہونے کی کوشش کرنے لگا اور دھکم پیل شروع ہو گئی، جس کے بعد لوگ گرنا شروع ہو گئے۔ ایک شخص گرتا تو اُس پر پندرہ بیس لوگ مزید گر جاتے۔ لوگوں کی ہلاکت کا سلسلہ اُس وقت شروع ہوا، جب فیکٹری کا دروازہ بند کر دیا گیا‘‘۔

پولیس اوررمقامی اہلکاروں نے کہا ہے کہ اس تمباکو فیکٹری کے مالک اور دیگر چھ افراد کو پبلک سیفٹی یا عوامی تحفظ کی طرف سے غفلت برتنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ڈسٹرکٹ گورنر مستقیم باللہ نے کہا ہے:’’ان کے خلاف قانونی ایکشن لیا جائے گا‘‘۔