1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بوکو حرام کے قبضے سے تقریباﹰ تین سو خواتین آزاد‘

امتیاز احمد29 اپریل 2015

نائجیریا کی فوج نے شدت پسند تنظیم بوکوحرام کے قبضے سے دو سو لڑکیاں اور ترانوے خواتین کو ’’آزاد کروانے‘‘ کا دعویٰ کیا ہے۔ تاہم ان میں وہ دو سو لڑکیاں شامل نہیں ہیں، جنہیں گزشتہ برس ایک ہاسٹل سے اغوا کیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1FH16
Nigeria Soldaten in Diffa Aktion gegen Boko Haram
تصویر: Reuters/J. Penney

تيل کی پيداوار کے ليے مشہور اور آبادی کے لحاظ سے بر اعظم افريقہ کے سب سے بڑے ملک نائجيريا کی فوج کے مطابق ان خواتین کو ایک ملٹری آپریشن کے دوران ملک کے شمال مغرب میں واقع سامبیسا جنگل سے ’’آزاد کروایا‘‘ گیا ہے۔ فوج کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’فوجیوں نے دو سو مغوی لڑکیوں اور ترانوے خواتین کو بچا لیا ہے۔‘‘ تاہم ان میں چیبوک گاؤں کی وہ دو سو لڑکیاں شامل نہیں ہیں، جنہیں اپریل 2014ء میں اغوا کیا گیا تھا۔ فوج میں سامبیسا جنگل میں واقع بوکو حرام کے چار کیمپ تباہ کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔

قبل ازیں سفارتکاروں اور خفیہ اہلکاروں کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس اغوا کی گئی لڑکیوں میں میں چند ایک کو اسی جنگل میں رکھا گیا ہے۔ یہ جنگل چیبوک سے تقریباﹰ ایک سو کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ دوسری جانب امریکی جاسوس ڈرون طیارے بھی ہاسٹل سے اغوا ہونے والی لڑکیوں کو تلاش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

نیوز ایجنسی روئٹرز نے اپنے خفیہ ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ نائجیریا کی فوج کے دعوؤں کے برعکس ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ان لڑکیوں اور خواتین کو اغوا کیا گیا تھا یا یہ عسکریت پسندوں کی بیویاں اور بیٹیاں ہیں۔ ایک اہلکار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’فی الحال وہ اپنی آزادی سے متعلق خوش ہیں۔ ابھی اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ آیا وہ شادی شدہ ہیں، کتنی دیر سے اس کیمپ میں موجود ہیں اور آیا ان کے بچے بھی ہیں۔‘‘

تفصیلات فراہم کیے بغیر یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آپریشن کے دوران کچھ خواتین زخمی ہوئی ہیں اور چند عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔ ایک مہینہ قبل نائجیریا کی فوج نے سامبیسا جنگل میں فضائی بمباری شروع کر دی تھی۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ بمباری انتہائی احتیاط سے کی جا رہی ہے تاکہ چیبوک کی لڑکیوں کو نقصان نہ پہنچے۔

دو ہفتے پہلے نائجیریا میں انسداد بغاوت یونٹ کے ترجمان مائیک عمری نے کہا تھا کہ کثیرالقومی فوجی آپریشن کے نتیجے میں شمال مشرق کے تمام بڑے شہروں سے بوکو حرام کے عسکریت پسند بھاگ رہے ہیں اور تمام تر توجہ عسکریت پسندوں کے مضبوط گڑھ سامبیسا جنگل پر مرکوز کی جا رہی ہے۔

نائجیریا کے انتہائی شمال مشرق میں انتہاپسند سوچ کے حامل فرقے بوکو حرام کے نزدیک مغربی اقدار، سوچ، فکر اور تعلیم حرام ہے۔ ہاؤسا زبان میں بوکو حرام کا بھی یہی مطلب نکلتا ہے۔ سن 2009ء سے یہ تنظیم مسلح کارروائیوں میں مصروف ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق افریقی ملک نائجیریا کے مختلف صوبوں میں کمزور حکومتی عمل کے ساتھ ساتھ معاشرتی ناہمواری اور غربت کی وجہ سے اقتصادی طور پر کم آسودہ حال مسلمانوں میں مذہبی شدت پسندی گھر کرتی جا رہی ہے اور بوکو حرام ایسے ہی مسلمانوں کا گروپ ہے۔ مبصرین کے مطابق اگر نائجیریا میں معاشرتی اور اقتصادی رویوں میں انقلابی تبدیلیاں نہ پیدا کی گئیں تو یہ پرتشدد تحریک سارے ملک میں انتشار اور لاقانونیت کے فروغ کا باعث بنے گی۔