1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچوں میں جینیاتی تبدیلیاں اخلافی لحاظ سے درست ہیں؟

20 جولائی 2018

کیا بیماریوں کے خاتمے کے لیے بچوں کی پیدائش سے پہلے ہی ان کے جینز میں تبدیلیاں کرنا اخلاقی لحاظ سے درست ہے؟ برطانوی ماہرین کے مطابق مخصوص شرائط کے تحت اپنی مرضی کے بچے پیدا کیے جا سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/31oxw
Mikroinjektion
تصویر: picture-alliance/dpa/Max-Delbrück-Centrum für Molekulare Medizin

چند روز پہلے برطانوی طبی ماہرین پر مشتمل پینل برائے اخلاقیات نے کہا ہے کہ مستقبل میں پیدائش سے پہلے ہی بچوں کے جینز میں تبدیلیاں کرنے اور انہیں بہتر بنانے کی اجازت فراہم کی جا سکتی ہے۔ حال ہی میں سائنس نے یہ تاریخی کامیابی حاصل کی تھی کہ ایمبریو کے ڈی این اے میں تبدیلی کرتے ہوئے ایک بچے کی زندگی میں بیماریوں کے خطرے کو کم تر کیا جا سکتا ہے۔  اس پیش رفت کے بعد کئی ممالک میں اس عمل پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

بائیو اخلاقیات پر کام کرنے والی برطانیہ کی نفیلڈ کونسل نے کہا ہے کہ اگر کسی شخص کی فلاح کا معاملہ ہو اور اسے معاشرتی سطح پر ناہمواری، تقسیم اور امتیازی سلوک سے بچانا مقصود ہو تو ایسے کسی بچے کی پیدائش سے پہلے ہی اس کے جینز میں تبدیلیاں لانے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ تاہم اس پینل کی سربراہی کرنے والی اور برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی میں قانون اور اخلاقیات کی پروفیسر کیرن یونگ کا کہنا تھا، ’’جینز میں تبدیلی کرتے ہوئے مستقبل کی نسل کے کردار پر اثرانداز ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘‘

ڈیزائنر بچوں کا خوف

دوسری جانب ناقدین کا خبردار کرتے ہوئے کہنا ہے کہ اس طرح کا کوئی بھی اجازت نامہ فراہم کا عمل ایک برتر انسان پیدا کرنے کے راستے ہموار کر سکتا ہے۔ قبل از پیدائش جس بھی بچے کے جینز میں تبدیلی لائی جائے گی اس کو باقی ماندہ انسانوں پر برتری حاصل ہو جائے گی۔ جینز میں تبدیلیوں کے خلاف مہم چلانے والے اور برٹش ہیومن الرٹ گروپ کے رکن ڈیوڈ کنگ کا کہنا تھا، ’’نفیلڈ کونسل کی رپورٹ ’ڈیزائنر بچوں‘ کی وکالت کرتی ہے اور ’قابل شرم‘ ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’جینیاتی انجنئیرڈ بچوں کو پیدا کرنے پر بین الاقوامی پابندی لازمی ہے۔‘‘ یاد رہے کہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے زیادہ ذہین اور زیادہ صحت مند بچے پیدا کیے جا سکتے ہیں۔

انسانی ایمبریو میں ہی بیماری کا جین تبدیل کرنے میں کامیابی

یہ بحث ایک ایسے وقت میں دوبارہ شروع ہوئی ہے، جب ایک ہفتہ پہلے ہی ایک دوسری رپورٹ میں خبردار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ جینز میں تبدیلی کی سب سے بہترین ٹیکنالوجی CRISPR/Cas9 پہلے سے لگائے گئے اندازوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اس رپورٹ میں برطانیہ کے ویلکم سینگر انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر ایلن بریڈلی کا کہنا تھا، ’’ڈی این اے میں تبدیلیوں کے نتائج اس سے بھی زیادہ خطرناک ہیں، جن سے ہم ابھی تک آگاہ تھے۔‘‘ ان کا کہنا تھا  کہ چھ سالہ پرانی اس ٹیکنالوجی کے حوالے سے چوہوں اور انسانی خلیوں پر تجربات سے پتا چلا ہے کہ ڈی این اے میں تبدیلیوں کے دوران کچھ  جین میوٹیشنز ایسی ہو جاتی ہیں، جن کا ارادہ ہی نہیں ہوتا۔