1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچوں کی شرح اموات میں تیزی سے کمی قابل ستائش ہے، یونیسیف

13 ستمبر 2012

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں نومولود بچوں کی اموات میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ اگلی دو دہائیوں میں بچوں کی اموات کو تقریباﹰ ختم کیا جا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/167ew
تصویر: DW

جمعرات کے روز شائع ہونے والی اس تازہ رپورٹ میں یونیسیف نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں پانچ برس سے کم عمر بچوں کی شرح اموات میں دو دہائیوں میں مجموعی طور پر چالیس فیصد کمی دیکھی گئی ہے، جو انتہائی خوش آئند بات ہے۔ رپورٹ کے مطابق سن 2011 میں چھ اعشاریہ نو ملین بچے ہلاک ہوئے جبکہ سن 1990 میں یہ تعداد بارہ ملین تھی، یعنی شرح اموات میں مجموعی طور پر 40 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شرح اموات میں کمی کے اس رجحان کا کوئی تعلق کسی ملک کی معاشی یا جغرافیائی صورتحال سے نہیں دیکھا گیا ہے کیونکہ پانچ برس سے کم عمر بچوں کی شرح اموات میں کمی غریب، متوسط اور زیادہ آمدنی، تمام ممالک میں تیزی سے کم ہوتی نظر آئی ہے۔

Symbolbild Hunger
یونیسیف کے مطابق مزید کوششیں کی جائیں تو شرح اموات کو تقریبا ختم کیا جا سکتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

یونیسیف کے مطابق، ’غریب ممالک جیسے بنگلہ دیش، لابیریا اور روانڈا۔ متوسط آمدنی والے ممالک جیسےمنگولیا اور ترکی اور زیادہ آمدنی والے ممالک جیسے عمان اور پرتگال، ہر جگہ بچوں کی شرح اموات میں تیزی سے کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔‘

یونیسیف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر انتھونی لیک کے مطابق پانچ برس سے کم عمر بچوں کی شرح اموات میں ایسی کمی ایک ’اہم فتح‘ ہے، جس کی وجہ حکومتوں، امدادی اداروں، ایجنسیوں اور خاندانوں کی مشترکہ کوششیں ہیں۔ ’مگر ابھی کام مکمل نہیں ہوا، اب بھی دنیا میں کئی ملین بچے پانچ برس سے کم عمر میں موت کا نوالہ بن جاتے ہیں، جنہیں نہایت آسانی سے بچایا جا سکتا ہے۔‘

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بچوں کی اموات کا زیادہ تر مرکز وسطی و جنوبی افریقہ اور جنوبی ایشیا جیسے علاقے میں۔ صرف ان دو خطوں میں ہونے والی ہلاکتیں دنیا بھر میں ہلاک ہونے والے بچوں کا 80 فیصد ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وسطی و جنوبی افریقہ میں سن 2011میں ہر نو میں سے ایک بچہ موت کا شکار بنا۔

لیک کے مطابق، ’یہ زندگیاں ویکسینیشن، بہتر خوراک بنیادی طبی امداد سے بچائی جا سکتی تھیں۔ دنیا کے پاس یہ سہولیات موجود ہیں، مسئلہ صرف یہ ہے کہ کیسے ان سہولیات کو ہر بچے تک پہنچایا جائے۔‘

at / ng (Reuters)