1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: اجتماعی جنسی زیادتی کیس میں نیا موڑ

جاوید اختر، نئی دہلی
2 اکتوبر 2020

ریاست اترپردیش کے ہاتھرس میں 19سالہ دلت لڑکی کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کیس میں پولیس اور انتظامیہ کا رول مزید مشتبہ ہوگیا ہے دوسری طرف بی جے پی حکومت کے خلاف عوام کا غصہ بڑھتا جارہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3jKwJ
Indien Uttar PRadesh | Proteste nach Vergewaltigung
تصویر: Jit Chattopadhyay/Pacific Press/picture-alliance

بھارتی ریاست اترپردیش(یو پی) کی پولیس نے دعوی کیا کہ دلت لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی نہیں تھی۔ حالانکہ موت سے قبل اپنے نزاعی بیان میں متاثرہ لڑکی نے واضح طور پر اپنے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کے الزامات لگائے تھے۔

اس سے قبل یو پی اترپردیش پولیس نے متاثرہ لڑکی کے گھروالوں کی اجازت کے بغیر ہی رات کی تاریکی میں متوفیہ کی آخری رسومات ادا کر دی تھیں۔ متاثرہ کنبہ کا کہنا ہے کہ پولیس نے انہیں گھر میں بند کر دیا تھا اور تمام تر منت سماجت کے باوجود گھر کے کسی بھی فرد کو آخری رسومات میں شرکت کی اجازت نہیں دی۔

یوپی پولیس کا مشتبہ کردار

یو پی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پولیس (قانون و انتظام) پرشانت کمار نے دعوی کیا ہے کہ فارنزک رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ جنسی زیادتی نہیں ہوئی تھی اور لڑکی کی موت گردن پر آنے والی سنگین چوٹ کی وجہ سے ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ جانچ میں اسپرم نہیں ملا۔

تاہم ماہرین نے اس دعوے میں کئی خامیاں بتائی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ خود پولیس کا کہنا ہے کہ جانچ کے لیے نمونے 25 ستمبر کو یعنی جنسی زیادتی کے واقعہ کے گیارہ دن بعد لیے گئے۔ ماہرین سوال کررہے ہیں کہ اتنے دنوں بعد کس امید میں نمونوں میں اسپرم تلاش کی جارہی ہے؟

Indien | Proteste in Neu-Delhi nach Tod eines Vergewaltigungsopfers
تصویر: Francis Mascarenhas/Reuters

انتظامیہ زخموں پر نمک چھڑک رہی ہے

عدالت نے بھی پولیس کے اس رویے پر سوالات اٹھائے ہیں۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے یو پی کی انتظامیہ کی سخت سرزنش کی ہے۔ عدالت نے کہا،”ایک بے رحمی تو مجرموں نے متاثرہ لڑکی کے ساتھ کی اور اس کے بعد جو کچھ ہوا اگر وہ سچ ہے تو یہ  اس کے خاندان کی مدد کرنے کے بجائے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ حکام کے رویے سے نہ صرف متوفیہ کی بلکہ اس کے خاندان کے لوگوں کی بھی انسانی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔"

عدالت نے اس معاملے کی 12 اکتوبر کو سماعت کی تاریخ مقرر کی ہے اور اس موقع پر ریاستی ہوم سکریٹری، ڈی جی پی، اے ڈی جی پی، ہاتھرس کے ضلع مجسٹریٹ کو بھی موجود رہنے کا حکم دیا ہے۔

یوگی حکومت کے دور میں اضافہ

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم سماجی کارکن رنجنا کماری نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،''ریاست یوپی میں جب سے یوگی حکومت آئی ہے اس وقت سے دلتوں اور خواتین کے خلاف زیادتی کے واقعات میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی تو پہلے بھی ہوتی تھی تاہم بی جے پی کی حکومت میں ان چیزوں کو بڑھاوا ملا ہے۔‘‘ وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ابتدائی دس ماہ یعنی اپریل  سن2017 سے جنوری سن 2018 کے درمیان جنسی زیادتی کے واقعات میں سابقہ حکومت کے دور میں ہونے والے واقعات کے مقابلے میں 26 فیصد کا اضافہ ہوا۔

رنجنا کماری مزید کہتی ہیں 'یوپی میں جنگل راج ہے، جہاں خواتین کے تحفظ کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔پولیس کارروائی نہیں کرتی اور مجرم کھلے عام گھوم رہے ہیں، بدمعاشوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے۔"

Indien | Proteste in Neu-Delhi nach Tod eines Vergewaltigungsopfers
تصویر: Anushree Fadnavis/Reuters

ملک بھر میں مظاہرے

جنسی زیادتی کے اس واقعے کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ قومی دارالحکومت دہلی میں حکومت نے انتہائی سکیورٹی والے انڈیا گیٹ علاقے میں گوکہ امتناعی احکامات نافذ کردیے ہیں لیکن دلتوں کی ایک تنظیم 'بھیم آرمی‘ نے جمعہ کی شام انڈیا گیٹ پر مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

 بھیم آرمی کے سربراہ چندرشیکھر آزاد نے ایک ٹوئٹ میں لکھا ”ہاتھرس کے وحشی پن پر مودی جی خاموش کیوں ہیں؟ جس یوپی سے وہ دوسری مرتبہ پارلیمان میں پہنچے اسی یوپی میں ہاتھرس بھی ہے، کیا پی ایم یہ نہیں جانتے؟  ہماری بہن کو کچرے کی طرح جلایا گیا اس پر خاموشی کیوں؟"  آزاد نے ایک اور ٹوئٹ میں لکھا”آپ کب تک خاموش رہیں گے پردھان منتری جی؟ آپ کی خاموشی بیٹیوں کے لیے خطرہ ہے۔ آپ کو بولنا پڑے گا۔ آپ کو جواب دینا پڑے گا۔"

سیاست شروع

اس دوران اپوزیشن ترنمول کانگریس کے بعض اراکین پارلیمان نے آج جمعے کو جب ہاتھرس جاکر متاثرہ خاندان سے ملاقات کرنے کی کوشش کی تو یوپی پولیس نے انہیں راستے میں ہی روک لیا۔اس دوران دھکا لگنے سے پارٹی کے رکن پارلیمان ڈیرک او برائن زمین پر گر پڑے۔

کل جمعرات کو کانگریس کے رہنما راہول گاندھی اور پریانکا گاندھی کو بھی یوپی پولیس نے ہاتھرس جانے سے روک دیا تھا۔ دونوں کو حراست میں لے لیا گیا تھا اور دہلی واپس لوٹ جانے کی شرط پر رہا کیا گیا۔ حالانکہ بعد میں پولیس نے ان دونوں کے خلاف ایک معاملہ بھی درج کردیا۔ ان کے علاوہ کانگریس کے 150سے زائد کارکنوں کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

خواتین کے خلاف جرائم میں یوپی سرفہرست

جرائم کا اعدادوشمار رکھنے والے بھارت کے سرکاری ادارے نیشنل کرائم ریکارڈ ز بیورو کی رپورٹ کے مطابق سن 2019 میں خواتین، لڑکیوں اور دلتوں کے خلاف جرائم کے سب سے زیادہ واقعات یو پی میں ہوئے۔ نیشنل کمپین آن دلت ہیومن رائٹس نامی ادارہ کے مطابق اگر کسی دلت خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے تو پولیس رپورٹ درج کرنے میں کافی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہے۔

خیال رہےکہ 14ستمبر کو نام نہاد اعلی ذات کے چار نوجوانوں نے دلت لڑکی کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کی تھی۔ لڑکی برہنہ حالت میں کھیتوں میں ملی تھی۔ اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا، کئی جگہ چوٹ کے نشان تھے اور ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اس کی زبان بھی کاٹ دی گئی تھی۔ مقامی ہسپتال میں ابتدائی علاج کے بعد اسے دہلی کے ایک ہسپتال میں منتقل کردیا گیا جہاں منگل کے روز اس کی موت ہوگئی اور پولیس نے خاموشی کے ساتھ اس کی آخری رسومات ادا کردیں۔

کشمیر میں مبینہ حراستی قتل، عرفان ڈار کا کیا قصور تھا؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں