1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: اعلیٰ ترین تفتیشی ایجنسی کی ساکھ پر سوالیہ نشان

جاوید اختر، نئی دہلی
23 اکتوبر 2018

بھارت کی اعلٰی ترین تفتیشی ایجنسی سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) میں جاری داخلی جنگ مزید شدت اختیار کرگئی ہے اور حالات کو سنبھالنے کے لیے وزیر اعظم کو مداخلت کرنا پڑ ی ہے۔

https://p.dw.com/p/371vu
Logo CBI Central Bureau of Investigation, India
تصویر: Central Bureau of Investigation

سی بی آئی میں جار ی اس جنگ سے جہاں اس کی ساکھ بری طرح متاثر ہ ورہی ہے وہیں اس نے اپوزیشن جماعتوں کو مودی حکومت کے خلاف حملہ کرنے کا ایک موقع فراہم کردیا ہے۔
1941میں قائم ہونے والی بھارت کی سب سے اہم تفتیشی ایجنسی سی بی آئی پر یو ں تو پہلے بھی انگلیاں اٹھتی رہی ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے جب اس ایجنسی کے دو اعلی ترین افسران ڈائریکٹر آلوک ورما اور اسپیشل ڈائریکٹر راکیش استھانا نے ایک دوسرے پر بدعنوانی اور رشوت خوری کے الزامات لگائے ہیں۔ اس پورے معاملے میں ایجنسی کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس رینک کے ایک افسر دیویندر کمار کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ جب کہ سی بی آئی نے خود اپنے اسپیشل ڈائریکٹر استھانا کے خلاف بدعنوانی کا کیس درج کرایا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ انہیں بھی کسی وقت گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف استھانا نے بھی اپنے باس آلوک ورما پر رشوت خوری کے ایک درجن سے زائد معاملات درج کرائے ہیں۔ اس دوران سی بی آئی کے مختلف افسران کے ٹھکانوں پر چھاپے بھی مارے گئے۔
چونکہ سی بی آئی وفاقی وزارت داخلہ کے تحت آتا ہے اس لیے تازہ ترین صورت حال کی وجہ سے نریندر مودی حکومت پریشانیوں میں گھر گئی ہے۔ اس نے معاملہ سنبھالنے کی کوشش میں سی بی آئی کے دونوں اعلٰی افسران کو وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) میں طلب کیا اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کو اس معاملے کو سلجھانے کے کام پر لگایا گیا تاہم ابھی تک یہ معاملہ حل نہیں ہوسکا ہے اور آئندہ چند دنوں میں اس میں مزید شدت پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ لیکن اس کا سب سے خراب اثر ایک غیر جانبدار اور آزاد ایجنسی کے طورپر سی بی آئی کے امیج پر پڑ رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے ایک سینیئر وکیل پرشانت بھوشن نے اس صورت حال کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’حکومت سی بی آئی کو اپنے سیاسی مخالفین کو پریشان کرنے اور اپنی جماعت کے لوگوں کو بچانے کے لیے ہمیشہ استعمال کرتی رہی ہے۔ اس کی وجہ سے اس کے اعتبار اور وقار میں مسلسل گراوٹ آئی ہے۔ لیکن جہاں تک تازہ ترین صورت حال کا معاملہ ہے تو اس کے لیے مودی حکومت ہی پوری طرح ذمہ دار ہے۔‘‘ پرشانت بھوشن کا مزید کہنا تھا، ’’چونکہ استھانا وزیر اعظم مودی کے چہیتے افسر ہیں اس لیے کئی سینیئر افسران کو نظر انداز کر کے انہیں کارگزار ڈائریکٹر بنادیا گیا تھا لیکن جب سپریم کورٹ نے ان کی تقرری کوکالعدم قرار دے دیا تو حکومت نے ایک بار پھر انہیں اسپیشل ڈائریکٹر کے عہدہ پر فائز کردیا، حالانکہ وہ اس کے اہل نہیں تھے۔‘‘ استھانا کے خلاف پرشانت بھوشن نے ہی سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا۔
پرشانت بھوشن نے استھانا کے خلاف مقدمہ دائر کرنے پر سی بی آئی کے ڈائریکٹر آلوک ورما کی تعریف کر تے ہوئے کہا کہ انہوں نے جرات کا مظاہر ہ کیا ہے اور ایسا کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سی بی آئی اس وقت ایک بڑے داخلی اور خارجی بحران کے دور سے گزر رہی ہے اور ایک آزاد ایجنسی کے طورپر اس نے اپنا اعتبار بہت پہلے کھودیا ہے۔ حکمراں جماعتیں بالخصوص چھوٹی سیاسی اور علاقائی جماعتوں کی وفاداری خریدنے کے لیے اس کا خوب استعمال کرتی رہی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جب بھی کوئی بڑا یا سنگین معاملہ یا گھپلا سامنے آتا ہے تو عوام سی بی آئی انکوائری کا مطالبہ کرتے ہیں کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ ایک وفاقی ایجنسی اور وسیع اختیارات کی وجہ سے سی بی آئی معاملہ کی جانچ ایمانداری سے کرے گی اور سچائی سامنے لائے گی۔
سپریم کورٹ کی طرف سے بار بار پھٹکار لگانے اور میڈیا اور سول سوسائٹی کی طرف سے سی بی آئی پر نکتہ چینی کے باوجود کسی بھی حکومت نے سی بی آئی کو آزادی سے کام کرنے نہیں دیا ۔ 2013ء میں سپریم کورٹ کے جسٹس آر ایم لودھا نے سی بی آئی کو پنجرے میں بند طوطا کہا تھا اور اس کے طریقہ کار کو شفاف بنانے کے لیے کئی مشورے دیے تھے جنہیں نافذ کرنے کے دعوے بھی کیے گئے تھے۔ 2016ء میں سی بی آئی نے باقاعدہ اعداد و شمار جاری کر کے اپنی کارکردگی میں زبردست سدھار کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور اس بات پر خصوصی زور دیا تھا کہ اس نے ملک بھر میں 2200 سینیئر بدعنوان افسران کا پتہ لگاکر ان کے خلاف انکوائری شروع کردی ہے۔
سی بی آئی میں جاری جنگ نے سیاسی رنگ بھی اختیار کرلیا ہے۔ اپوزیشن کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے ایک ٹوئیٹ کر کے کہا، ’’وزیر اعظم کے آنکھوں کا تارا (استھانا)، گودھرا یس آئی ٹی کا سب سے نمایاں چہرہ اور سی بی آئی کے دوسرے نمبر کی حیثیت رکھنے والا گجرات کیڈر کا افسر اب رشوت لیتے ہوئے گرفتار ہوا۔‘‘

Narendra Modi
سی بی آئی کی تازہ ترین صورت حال کی وجہ سے نریندر مودی حکومت پریشانیوں میں گھر گئی ہے۔تصویر: picture-alliance/dpa/TASS/M. Metzel
Indien Vereidigung Oppositionsführer Rahul Gandhi
وزیر اعظم کے آنکھوں کا تارا (استھانا)، گودھرا یس آئی ٹی کا سب سے نمایاں چہرہ اور سی بی آئی کے دوسرے نمبر کی حیثیت رکھنے والا گجرات کیڈر کا افسر اب رشوت لیتے ہوئے گرفتار ہوا، راہول گاندھیتصویر: Reuters/A. Hussain
Indien Gujarat Ausschreitungen 2002
آستھانا نے گودھرا ٹرین واقعہ (جس کے بعد گجرات بھر میں فسادات پھوٹ پڑے تھے) کی انکوائری کے لیے قائم خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) کی قیادت کی تھی۔ تصویر: AP

خیال رہے کہ آستھانا نے گودھرا ٹرین واقعہ (جس کے بعد گجرات بھر میں فسادات پھوٹ پڑے تھے) کی انکوائری کے لیے قائم خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) کی قیادت کی تھی۔ اس کے علاوہ احمد آباد بم دھماکا اور دیگر معاملات کی انکوائری میں بھی شامل رہے تھے۔
عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمان سنجے سنگھ کا کہنا تھا، ’’مودی حکومت نے طوطے (سی بی آئی) سے اپنے مخالفین کو پھنسانے کی کوشش کی لیکن طوطا خود ہی جال میں پھنس گیا۔‘‘ بائیں بازو کی جماعت سی پی ایم نے کہا کہ مودی حکومت تمام آئینی اداروں کو تباہ کر رہی ہے۔ اس صورت حال کو روکنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف حکمراں بی جے پی کا کہنا ہے کہ قانون اپنا کام کر رہا ہے۔