1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولایشیا

بھارت: الیکٹرانک فضلہ غریب بچوں کی جان کا دشمن

10 فروری 2023

لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فونز میں قیمتی دھاتیں تو ہوتی ہیں، تاہم تلف شدہ ایسے الیکٹرانک آلات سے ان کے نکالنے کا عمل بہت خطرناک ہے اور عام طور پر غریب بچے یہ کام کرتے ہیں۔ اس غیر منظم کام پر کسی طرح کی نگرانی بھی نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/4NK41
Indien Elektroschrott-Sammler in Neu Delhi
تصویر: Adil Bhat/DW

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کا مشرقی علاقہ سیلم پور ملک کے سب سے بڑے الیکٹرانک ویسٹ یا تکنیکی فضلے کو تلف کرنے کی جگہ ہے اور تقریباً 50,000 لوگ اس فضلے سے قیمتی دھاتیں نکال کر اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔ یہ کام کرنے والے بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے جو ای-کچرے کو تلف کر کے، اس سے قیمتی دھات نکال کر اور ری سائیکل کر کے روزی کماتے ہیں۔

کیا پاکستان دوسرے ملکوں کے کچرے کا کوڑا دان بنتا جا رہا ہے؟

تیرہ سالہ ارباز احمد اور اس کا دوست سلمان پلاسٹک کا ایک بڑا تھیلا لے کر الکٹرانک فضلے کے ڈھیر میں سے اپنے کام کی چیز تلاش کرنے میں مصروف ہیں اور اپنے ننگے ہاتھوں سے سرکٹ بورڈ اور آلات کے دیگر حصوں کو توڑ رہے ہیں۔ وہ بغیر کسی حفاظتی بند و بست کے دھات نکالنے کے لیے سڑک کے کنارے ایسے مواد کو جلاتے ہیں۔ یہ دونوں دوست آج اب تک چار سو روپے کے قیمتی دھات نکال چکے ہیں۔

جوہری فضلہ کیا ہے اور ٹھکانے کیسے لگایا جاتا ہے؟

 احمد کا کہنا تھا ''ایسے بھی دن ہوتے ہیں جب ہم 10 گھنٹے سے زیادہ کام کرتے ہیں اور زیادہ پیسے کما لیتے ہیں۔ میری کمائی کا انحصار اس بات پر ہے کہ میں کتنی تیزی سے ڈمپنگ گراؤنڈ پہنچتا پاتا ہوں اور کیا حاصل کر پاتا ہوں۔ بعض دن ایسے بھی ہوتے ہیں، جب مجھے مفید دھاتیں بھی مل جاتی ہیں۔''

بھارت: ہاتھوں سے انسانی فضلہ اٹھانے کا چلن آج بھی برقرار

پانچ برس قبل احمد اور ان کا خاندان روزی کی تلاش میں ریاست اتر پردیش سے دارالحکومت دہلی منتقل ہوا تھا۔ چھ ارکان پر مشتمل خاندان کی کفالت اور انہیں دو وقت کی روٹی فراہم کرنے کے لیے، احمد کے والد الیکٹرانک ویسٹ مارکیٹ میں مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں اور انہوں نے اپنے بیٹے کو بھی اس کام پر لگانے کا فیصلہ کیا۔

جرمن کیمیکل کمپلیکس میں دھماکا، انتہائی خطرناک قرار

وہ ایسے ہزاروں بچوں میں شامل ہے، جو پارا، سیسہ اور آرسینک جیسی زہریلی دھاتیں گلی میں جلاتے رہتے ہیں، کیونکہ سیلم پور کی یہ صنعت غیر رسمی اور غیر منظم ہے۔

پیشاب بھی توانائی کے حصول کا ذریعہ، عملی استعمال قریب تر

Indien Elektroschrott-Sammler in Neu Delhi
کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد نہیں کیا جاتا ہے اور بھارت میں ای ویسٹ مارکیٹ کی اکثریت غیر منظم ہےتصویر: Adil Bhat/DW

بھارت میں ای ویسٹ کا مسئلہ

گلوبل ای ویسٹ مانیٹر 2020 نامی ادارے کے مطابق سن 2019 میں دنیا نے مجموعی طور پر 53.6 ملین میٹرک ٹن ای-کچرا پھینکا۔ اس میں بھارت نے 3.2 ملین میٹرک ٹن ای-کچرا پیدا کیا اور اسے ختم کرنے یا پھر ری سائیکلنگ کے لیے اس کا بیشتر حصہ سیلم پور میں بغیر کسی ضابطے کے پھینکا جاتا ہے۔

کمپیوٹرز، ڈیسک ٹاپس، اسکرینز، موبائل فونز اور ایئر کنڈیشنرز کے فضلے سے لدے ٹرک ہر صبح یہاں اپنا بوجھ اتارتے ہیں۔ انہیں چننے والے اسکریپ کو پہلے الگ الگ کرکے سرکٹ بورڈز، بیٹریوں اور کیپسیٹرز کو اس میں سے چھانٹتے ہیں۔ اس میں سے کچھ کو کیمیائی مواد میں ڈبو دیا جاتا ہے یا تھوڑا سونا، تانبا اور دیگر دھاتیں حاصل کرنے کے لیے اسے جلایا جاتا ہے۔ کچرا چننے والے افراد اس تیزابی عمل کے دوران زہریلے مادوں سے دوچار ہوتے ہیں۔

بھارت نے اس غیر منظم صنعت سے نمٹنے کی کوشش کی ہے اور سن 2011 اور 2016 میں قوانین کا ایک سلسلہ بھی متعارف ہوا،  جس میں تمام ای ویسٹ ری سائیکلنگ سہولیات کی اجازت اور رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے تحت کچرے کو تلف کرتے وقت حفاظتی آلات استعمال کرنے کی ہدایت بھی دی گئی ہیں۔

تاہم کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد نہیں کیا جاتا ہے اور بھارت میں ای ویسٹ مارکیٹ کی اکثریت غیر منظم ہے۔

ماحولیات سے متعلق ایک این جی او 'ٹوکسکس لنک' نے حکومت پر مزید سخت قوانین متعارف کرانے اور زمین پر اسے کے موثر نفاذ کی نگرانی کے لیے دباؤ ڈالنے کی بھی کوشش کی ہے۔ ادارے کو ان مہلک حالات میں کام کرنے والے بچوں کی صورتحال پر بھی تشویش لاحق ہے۔

تنظیم کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ستیش سنہا سیلم پور سائٹ کا باقاعدگی سے دورہ کرتے ہیں۔ ان کا مشاہدہ یہ ہے کہ غریب خاندان اپنے بچوں کو اضافی آمدن کے لیے ای ویسٹ نکالنے پر مجبور کرتے ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ''بچہ مزدوری کو روکنے اور بچوں کو ای ویسٹ کیمیکلز کے خطرناک ایکسپوزر سے بچانے کے لیے، حکومت کو چاہیے کہ وہ بچوں کے تحفظ اور فضلہ کے انتظام سے متعلق موجودہ قوانین پر موثر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ یہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب مختلف ایجنسیاں، جیسے بچوں کے حقوق کے گروپ، دوسرے محکموں جیسے کہ ضلعی سطح کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کریں۔''

بچوں کی صحت کو کن خطرات کا سامنا ہے؟

ڈاکٹر پرویز میاں سیلم پور کے علاقے کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں اور وہ ای ویسٹ اٹھانے والے بچوں کی صحت کے خطرات کے بارے میں کافی فکر مند ہیں۔

ان کا کلینک سیلم پور کی گنجان گلیوں میں واقع ہے اور وہ روزانہ بہت سے ایسے بچوں کا علاج کرتے ہیں، جو دھاتوں میں پائے جانے والے کیمیکل کے زہریلے مادوں کے مسلسل ربط کی وجہ سے جلد کی سنگین بیماریوں اور پھیپھڑوں کے دائمی انفیکشن میں مبتلا ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہر سال مریضوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ہی صحت کی صورت حال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ خطرناک کیمیکلز کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں میں آگاہی کا واضح فقدان ہے، جو بچوں کے دائمی طور پر بیمار ہونے کی بڑھتی ہوئی تعداد کی اہم وجہ ہے۔''

ادھر سیلم پور کی تنگ گلیوں میں احمد اور اس کا دوست مارکیٹ میں آنے والے ای-کچرے کی نئی کھیپ کو تلف کرنے اور اس میں چھانٹنے کے  تیاری کر رہے ہیں۔ ان کے لیے اس کا مطلب زیادہ آمدن ہے۔ تاہم اس آمدن کے لیے انہیں اپنی صحت کی بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔

ص ز/ ج ا (عادل بھٹ)

راوی میں صنعتی فضلے کی آمیزش انتہائی خطرناک