1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت اور روس کا سالانہ اجلاس منسوخ، وجہ کیا ہے؟

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
24 دسمبر 2020

بھارت اور چین کے کشیدہ حالات کے دوران روس اور بھارت کا سالانہ اجلاس پہلی بار منسوخ ہوا ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ روس کے ساتھ روابط خراب ہونے سے بھارت کو مستقبل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3nBnq
Brasilien BRICS-Treffen Modi und Putin
تصویر: AFP/P. Golovkin

حال ہی میں روس نے کواڈ گروپ میں بھارت کی شمولیت پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، جس کے بعد پہلی بار بھارت اور روس کے درمیان اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کے اعتبار سے اہمیت کی حامل سالانہ میٹنگ منسوخ ہو گئی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعلقات کی بہتری لیے یہ سالانہ میٹنگ گزشتہ 20 برسوں سے باقاعدگی سے منعقد ہوتی آ رہی تھی۔

بھارتی حکومت کی وضاحت

تاہم بھارت نے اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا اور کہا ہے کہ کسی اختلاف کی وجہ سے نہیں بلکہ کورونا وائرس کے بحران کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا۔ نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو نے کہا کہ میٹنگ موجودہ صورت حال کے پیش نظر منسوخ کرنا پڑی،’’دونوں ملکوں کی حکومت نے اس پر اتفاق کیا تھا۔ اس بارے میں کوئی دوسرا الزام یا دعوی گمراہ کن ہے۔ خاص طور پر اہم رشتوں سے متعلق فرضی کہانیاں پھیلانا غیر ذمہ دارانہ بات ہے۔"

بھارتی وزارت خارجہ نے یہ وضاحتی بیان حزب اختلاف کے سرکردہ رہنما راہول گاندھی کے اس بیان کے بعد جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ روایتی حلیف روس جیسے ملک کے ساتھ رشتے خراب کرنے کے خطرناک نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔

راہول گاندھی نے اس حوالے سے میڈیا کی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا، "روس بھارت کا اہم دوست ہے۔ ہمارے روایتی حلیف کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچانا تنگ نظری ہے جو مستقبل کے ہمارے رشتوں کے لیے خطرناک ثابت ہو گا۔" 

چین کے سرحدی تنازعات

 بھارتی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس برس کووڈ 19 کی وبا جب عروج پر تھی تب بھی کئی بار ملاقاتوں کے لیے بھارتی وفد روس کا دورہ کر کے مختلف اجلاسوں میں شرکت کر چکا ہے تو پھر اب اتنی اہم میٹنگ کو منسوخ کرنے کی ضرورت کیا تھی۔

اختلافات کی وجوہات    

بھارتی ذرائع ابلاغ میں اس طرح کی خبریں شائع ہوتی رہی ہیں کہ جب سے بھارت نے امریکا، آسٹریلیا اور جاپان کے گروپ 'کواڈ' میں شمولیت اختیار کی ہے تب سے روس اور بھارت کے رشتوں میں تناؤ پایا جاتا ہے۔ بھارت نے خطے میں چین کے اثرورسوخ کو مد نظر رکھتے ہوئے اس میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تاہم اسے بھارت کی امریکا کی جانب قربت سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ روس کو معلوم ہے کہ اس اقدام سے خطے میں اس کے مفادات متاثر ہو سکتے ہیں۔  

حال ہی میں ایک بھارتی خبر رساں ادارے نے نئی دہلی میں روسی سفارت خانے کے ایک سینیئر سفیر کے حوالے سے ایک بیان بھی جاری کیا تھا جس میں انہی خدشات کا ذکر کیا گيا تھا۔ روسی سفیر کا کہنا تھا، "ہمیں  بعض ممالک کی جانب سے بحر ہند اور بحرالکاہل کے خطے میں کچھ رکاوٹوں کی کوششوں کا سامنا ہے، جس سے خطے میں تعاون کے مقررہ اصولوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔"

روسی سفیر کا کہنا تھا کہ اس پیش رفت سے آسیان کی مرکزیت اور اس کے اتحاد کو نقصان پہنچے گا،’’کواڈ خطے میں جامع مذاکرات اور مکالمے کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔" ذرائع کے مطابق روس کی جانب سے ان کھلے بیانات کے سبب نئی دہلی میں بھی کافی تشویش اور بے چینی پائی جاتی ہے۔

بھارت اور روس کے تعلقات

بھارت اور روس کے درمیان اسٹریٹیجک پارٹنر شپ کے حوالے سے سن 2000 سے ہی سالانہ میٹنگ کا طریقہ کار موجود ہے جسے 2010ء میں خصوصی درجہ دیتے ہوئے، 'اسپیشل پریویلج اسٹریٹیجک پارٹنر شپ' میں تبدیل کیا گيا تھا۔ گزشتہ برس اس میٹنگ میں شرکت کے لیے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے روس کا سفر کیا تھا جبکہ 2018ء میں روسی صدر پوٹن اس میں شرکت لیے بھارت آئے تھے۔

اطلاعات کے مطابق پہلے اس حوالے سے ایک ورچوئل میٹنگ کا امکان تھا تاہم وہ بھی نہیں ہو سکی اور اس حوالے سے سفارت کاروں میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔ کورونا کا بحران کے دوران ہی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بنگلہ دیش، آسٹریلیا اور ویتنام کے حکومتی سربراہان کے ساتھ ورچوئل میٹنگز کرتے رہے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ وقت نئے اتحاد اور گروپ بندیوں کا ہے۔ بھارت بھی آہستہ آہستہ ہی صحیح لیکن مکمل طور پر امریکا کے پالے میں جاتے دکھ رہا ہے اور اس سے خطے میں نئے اتحاد اور گروپ بندی کا امکان  ہے۔ ماہرین کے مطابق بھارت چین تنازعے کے حل کے لیے بھی روس نے اپنی سطح کی کوششیں کی تھیں تاہم بھارت نے اس بارے روسی موقف کے بجائے امریکی موقف کو ترجیح دے رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ملاقاتوں کے باوجود کوئی بات نہیں بن سکی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں