1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: تیسری جنس کے لیے پہلا اسکول لیکن صنفی امتیاز جاری

علی کیفی Murali Krishnan
3 جنوری 2017

بھارت میں تیسری جنس کے افراد کے لیے پہلے اسکول کا افتتاح ہو گیا ہے اور اس جنس کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن اسے ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں تاہم درحقیقت ملک میں اس جنس کے ساتھ امتیازی سلوک بدستور جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/2VCSn
Indien Hijra Das dritte Geschlecht
تصویر: picture alliance/dpa/Jagadeesh Nv

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے ڈی ڈبلیو کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں مرالی کرشنن نے لکھا ہے کہ گو جنوبی ریاست کیرالہ میں ساہاج انٹرنیشنل اسکول کا افتتاح ایک مثبت قدم ہے تاہم تیسری جنس کے حقوق کے لیے سرگرم گروپوں کے مطابق ابھی بھی اس کمیونٹی کے افراد کو معاشرے کا بھرپور حصہ بنانے کے لیے بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔

سرِدست اس اسکول میں ایک معذور شخص اور ایک مہاجر سمیت طلبہ کی تعداد دَس ہے تاہم اس اسکول کا اصل مقصد تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے اُن بالغ افراد کو معیاری تعلیم فراہم کرنا ہے، جنہوں نے بچپن میں اسکول چھوڑ دیا تھا۔ یہ اسکول اپنے ان طلبہ کو پیشہ ورانہ تربیت دینے کا بھی عزم رکھتا ہے۔

Indien Transsexuelle Hijras
انفرادی کامیابیاں اپنی جگہ لیکن مجموعی طور پر بھارت میں اس کمیونٹی کے ارکان کو بدستور حقارت کی نظروں سے دیکھا جاتا ہےتصویر: DW/M. Krishnan

ڈی ڈبلیو کے مرالی کرشنن کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے تیسری جنس کے حقوق کے لیے سرگرم اور اسی کمیونٹی سے وابستہ وجے راجا ملکہ نےکہا:’’ہمارا نصب العین ان طالب علموں کی تقدیر بدلنا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ معاشرہ تیسری جنس کے شہریوں کو گلے لگائے اور قبول کرے۔‘‘

ملکہ اور دو دیگر سرگرم کارکنوں مایا مینن اور سی کے فیصل کو امید ہے کہ اُن کی اس کوشش سے بھارت میں تیسری جنس کے  افراد کے ساتھ امتیازی سلوک کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔

بھارت میں تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی تعداد تقریباً تین ملین بتائی جاتی ہے تاہم پہلی بار 2014ء میں بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے انہیں باقاعدہ ایک تیسری جنس تسلیم کیا گیا۔ اس عدالتی فیصلے کا مقصد یہ تھا کہ ان مخنث افراد کو ایک قانونی حیثیت، بہتر تحفظ اور ملازمتیں ملیں لیکن اس کمیونٹی کے ساتھ سماجی اور قانونی امتیاز آج بھی جاری ہے۔

Indien Transgender Madhu Bai Kinnar
جولائی 2015ء میں بھارت میں پہلی مرتبہ ایک ٹرانس جینڈر کو میئر بھی منتخب کیا گیاتصویر: DW/M. Krishnan

کیرالہ میں کھولے گئے اسکول کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کمیونٹی کے افراد کو معاشرے میں ایک جائز مقام دلایا جائے۔ تیسری جنس کے حقوق کے علمبرداروں کے مطابق اس اسکول کے ذریعے اس کمیونٹی کے افراد کو بہتر ملازمتیں تو مل سکتی ہیں لیکن معاشرے میں قبولیت کی منزل ابھی بہت دور لگتی ہے۔

اگست 2014ء میں دہلی یونیورسٹی نے ایک تاریخی اقدام کرتے ہوئے اپنے دروازے تیسری جنس کے طلبہ کے لیے کھول دیے تھے لیکن بہت کم لوگوں کی طرف سے درخواستیں آئیں۔

مئی 2015ء میں منابی بندوپدھیائے بھارت کی پہلی کالج پرنسپل بن گئی تھیں لیکن کولکتہ کے کرشنا نگر ویمنز کالج میں اُن کی پرنسپل شپ کا عرصہ مختصر رہا کیونکہ ابھی گزشتہ مہینے اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیا کہ کئی اساتذہ اور طلبہ اُن کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے تھے۔

جولائی 2015ء میں بھارت میں پہلی مرتبہ ایک ٹرانس جینڈر کو میئر بھی منتخب کیا گیا۔ اس طرح اس کمیونٹی کے ارکان کو انفرادی طور پر تو کامیابیاں ملی ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ کمیونٹی بدستور کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہی ہے۔