1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: دل میں بسے رام کا ایودھیا کی طرف سفر شروع

20 جنوری 2024

رام تو دل میں رہتے تھے۔ مگر لگتا ہے ان کو دل سے نکال کر مندر میں بھیج کر ایک بار پھر بن باس پر بھیجا جا رہا ہے۔ رامائن کے مطابق وہ بارہ سال بعد ایودھیا واپس آگئے تھے، اب دل میں کب واپس آئیں گے، وہ وقت ہی بتا پائے گا۔

https://p.dw.com/p/4bRjI
Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
تصویر: Privat

 بھارتی کے دارلحکومت نئی دہلی کا موسم بھی عجیب سا ہوتا ہے۔ انتہائی گرمی اور پھر سخت سردی۔ چند روز قبل میں لحاف اوڑے سردی کو بھگا رہی تھی۔ اطمینان تھا کہ آج بیٹے کی اسکول کی چھٹی ہے، اس کو تیار کرنے کے لیے صبح سویرے نہیں اٹھنا ہے، اس لیے کیوں صبح سویرے ہی لحاف کو چھوڑا جائے۔ ابھی دوبارہ خواب دیکھنے کی تیاری ہی کر رہی تھی، کہ دورازے پر پہلے گھنٹی بجنے لگی، اور پھر لگاتار دستک، یہ کون اتنے سویرے نازل ہوا۔ میں آنکھیں ملتے ہوئے اور صلواتیں سناتے ہوئے دروازے پر پہنچ گئی۔

یہ کیا، گھیروے کپڑے پہنے ایک ہجوم سا دروازے کے باہر کھڑا تھا اور مجھے دیکھتے ہی جے شری رام کے نعرے بلند کر رہا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ اس ہجوم نے ایک شخص نے، جو کسی مندر کا پجاری لگ رہا تھا، جلد ہی میرے ماتھے پر ٹیکہ لگایا اور دوسرے شخص نے ایک کارڈ تھما کر کہا کہ ایودھیا میں رام مندر اب تیار ہو رہا ہے۔ اس کی افتتاحی تقریب 22 جنوری کو ہو رہی ہے۔ اس لیے وہ مجھے اس تقریب میں آنے کی دعوت دینے آئے تھے۔ اگر ایودھیا جانے میں مشکل ہے، تو سوسائٹی میں بھی اسی دن تقریب منعقد کی گئی ہے اور اس میں بھگوان رام کو گھر ملنے کی خوشی میں جشن ہوگا۔ کیونکہ پچھلے چار سوسالوں سے بھگوان رام بے گھر تھے، اس جگہ پر بابری مسجد کھڑی تھی، جس کو 1992 میں مسمار تو کیا گیا تھا، مگر 2019 میں سپریم کورٹ کی طرف سے مسجد کی زمین رام جنم بھومی ٹرسٹ کو دینے کے بعد ہی مندرکی تعمیر کا کام شروع ہو گیا۔ اور اب عام انتخابات کے چند ماہ قبل تیار ہو گیا ہے اور وزیراعظم نریندر مودی خود اس کا افتتاح کریں گے۔ جو آدمی مجھے کارڈ دے رہا تھا، بے تکان بولے جا رہا تھا۔

اب میرے بولنے کی جب باری آئی، تو میں نے اس جم غفیر سے کہا کہ میرے گھر میں تو پہلے سے ہی بھگوان رام موجود ہیں۔ تو وہ کیسے بے گھر تھے۔ مگر وہ مجھے قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ بھگوان رام کا گھر ایودھیا میں تھا، جو ان کو اب واپس مل گیا ہے۔

میں نے کہا جو بھگوان میرے گھر پر برسوں سے براجمان ہیں، وہ پھر کون ہیں؟ اس کا کوئی جواب ان سے بن نہ پایا۔

بالآخر مجھے انہیں بتانا پڑا کہ میں سکھ مذہب سے تعلق رکھتی ہوں اور میرے لیے رام، پیغمبر محمد، یا گرو نانک سب ایک جیسے ہیں۔ میں سبھی کی عزت کرتی ہوں۔ اصل کام تو ان کی تعلیمات کو اپنانا ہے اور ان کی زندگی سے سبق حاصل کرنا ہے۔

اب ان میں سے ایک آواز آئی،

''میڈم سکھ بھی تو ہندو ہوتے ہیں۔‘‘

اب چھٹی کے دن صبح سویرے ان سے کیا بحث کرتی، میں نے کارڈ اور ان کا لایا ہوا پرساد رکھ لیا۔

اگر یہ سب کافی نہیں تھا، ہمارے محلے کا واٹس ایپ گروپ پیغامات سے بھر گیا ہے جس میں لوگوں سے بھگوان رام کو اس کا گھر ملنےکاجشن منانے کے لیے تیل اور دیے عطیہ کرنے کو کہا جا رہا ہے۔ اور یہ عطیہ دینے کے بعد آپ کو اپنی تصویر بھی پوسٹ کرنی ہے۔ ورنہ سماجی بائیکاٹ کیا جائیگا۔ یہ ایک انتہا ہے۔

مذہب اور عقیدے کے معاملات ہمیشہ سے ایک فرد کا ذاتی معاملہ رہا ہے۔ لیکن ان دنوں جس طرح سے لوگوں کے عقیدے کے معاملات کو سیاست اور سیاسی جماعتوں کی انتخابی حکمت عملی کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، وہ خطرناک مثال پیش کر رہی ہے۔

یوں تو وشو ہندو پریشد کے زیر کنٹرول رام جنم بھومی تیرتھ کھیتر مندر کے افتتاح کے تمام انتظامات کر رہا ہے، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسے ہر سطح پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حمایت حاصل ہے۔ یہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور وشو ہندو پریشد کے والنٹیر ہیں جو ’’میرے گھر رام آئے ہیں‘‘ کی گھر گھر مہم چلا رہے ہیں۔

بھگوان رام کے سامنے سجدہ کرنا میرا ذاتی انتخاب ہے۔ بھارت میں، ہندو مذہب میں دیوتاؤں کی کمی نہیں ہے۔ قدرت کی قوتوں کی پوجا کرنے سے لے کر وشنو کے کئی اوتاروں تک، بھارت میں، ہر قبیلے اور علاقے کی اپنی خدا ہے۔ ہر ایک کی مختلف رسومات بھی ہیں۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ اس ملک میں 33 کروڑ دیوی دیوتاؤں کی پوجا ہوتی ہے۔

وہ جگہ جہاں آج نیا تعمیر شدہ رام مندر کھڑا ہے، دسمبر 1992 تک بابری مسجد ہوا کرتا تھی۔

اسے بابر کے دربار میں ایک کمانڈر میر باقی نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ جگہ سو سال سے زیادہ عرصے سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تنازعہ کی وجہ بنی ہوئی تھی۔ یہ معاملہ 1885 میں عدالت میں پہلی بار لایا گیا تھا اور پھر کئی مراحل سے گزر کر 2019 میں بھارت کی سپریم کورٹ نے مندر کے حق میں فیصلہ سنایا۔

اس تنازعہ نے حکمران بی جے پی کو اپنی سیاسی قسمت بنانے کا وسیلہ دیا ہے۔ مرلی منوہر جوشی اور لال کرشن اڈوانی سمیت بی جے پی کے اس وقت کے مضبوط رہنما، نےمندر کی کو پارٹی کو نئی بلندیوں تک لے جانے کے استعمال کیا۔ آج بی جے پی کو جو اکثریتی حکومت اور طاقت حاصل ہے وہ انہی  کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ اڈوانی اور جوشی دونوں زندہ ہیں اوروہ مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی خواہش ظاہر کر چکے ہیں۔ لیکن ان دونوں کو گھر میں بیٹھنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

ایک صدی قبل علامہ اقبال نے رام کو امام ہند کا خطاب پیش کہا تھا۔ اقبال کے لیے رام کے وجود کی اہمیت محض ہندوؤں تک محدود نہیں تھی۔

تب شاید وہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ہندوستان کے رام ہندوؤں تک محدود ہوکر رہ جائیں گے اور دائیں بازو کی بی جے پی کے لیے انتخابات جیتنے کا وسیلہ بن جائیں گے۔ رام تو دل میں رہتے تھے۔ مگر لگتا ہے ان کو دل سے نکال کر مندر میں بھیج کر ایک بار پھر بن باس پر بھیجا جا رہا ہے۔ رامائن کے مطابق تو وہ بارہ سال بعد ایودھیا واپس آگئے تھے، مگر اب دل میں کب واپس آئیں گے، وہ وقت ہی بتا پائے گا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

 

Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
روہنی سنگھ روہنی سنگھ نئی دہلی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔