1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: مظاہرہ کرنے والے بیس سے زائد کسانوں کی موت

جاوید اختر، نئی دہلی
17 دسمبر 2020

بھارتی حکومت کے زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ایک اور کسان کی آج موت کے ساتھ اب تک بیس سے زائد کسانوں کی موت ہوچکی ہے۔ کل ایک شخص نے احتجاجاً گولی مار کر خودکشی کرلی تھی۔

https://p.dw.com/p/3mrPL
Indien Demonstration gegen Landwirtschaftgesetze
تصویر: Mohsin Javed

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی سرحد پردھرنے دیئے ہوئے ایک کسان کی سخت سردی کی وجہ سے آج صبح موت ہوگئی۔ کسان رہنماؤں کے مطابق گزشتہ بائیس دنوں سے مسلسل احتجاج کے دوران اب تک بیس سے زائد کسانوں کی جان جا چکی ہے، ان میں سے بیشتر کی موت کی وجہ سردی لگنا بتائی جا رہی ہے۔

سردی کی وجہ سے ہلاک ہونے والے کسان کا تعلق پنجاب سے تھا۔ ان کی عمر 37 برس تھی اور ان کے تین بچے ہیں۔ آج صبح ٹیکری بارڈر پر مظاہرے کی جگہ پر وہ اپنے عارضی خیمے میں مردہ پائے گئے۔ ذرائع کے مطابق ان کی موت سردی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ دہلی میں کل بدھ کو درجہ حرارت چار ڈگری تک پہنچ گیا تھا، جو گزشتہ دس برسوں میں سب سے کم تھا۔

'شردھانجلی دیوس‘ منانے کا اعلان

ہریانہ کے ایک گردوارہ کے پجاری بابا رام سنگھ نے بدھ کے روز احتجاجا ً گولی مار کر خودکشی کر لی۔ انہوں نے اپنے تحریری نوٹ میں کہا ہے کہ وہ کسانوں کے مظاہرے کی زبردست حمایت کرتے ہیں اور کسانوں کے ساتھ حکومت کی ناانصافی سے مایوس اور ناراض ہو کر اپنی زندگی کا خاتمہ کررہے ہیں۔

کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت کے متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف جب سے احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے ہیں ہر روز کم از کم ایک کسان کی موت ہو رہی ہے اور اب تک بیس سے زائد کسانوں کی موت ہو چکی ہے۔

کسانوں کی تنظیم آل انڈیا کسان سنگھرش کو آرڈی نیشن کمیٹی نے ان متوفی کسانوں کی یاد میں 20 دسمبر کو ہر گاؤں میں 'شردھانجلی دیوس‘ (یوم خراج عقیدت) منانے کا اعلان کیا ہے۔

’احتجاج بنیادی حق ہے‘

کسانوں کے احتجاج کی وجہ سے جاری تعطل کو ختم کرنے کے لیے مودی حکومت اور کسانوں کے نمائندوں کے درمیان بات چیت کے کئی ادوار ہو چکے ہیں لیکن کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ دوسری طر ف سپریم کورٹ میں بھی اس معاملے پر سماعت ہو رہی ہے۔

سپریم کورٹ نے آج جمعرات کے روز بات چیت کے ذریعہ جلد از جلد مسئلے کا حل تلاش کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ کسانوں کا احتجاجی مظاہرہ جلد ہی 'قومی مسئلہ‘ بن جائے گا۔

سپریم کورٹ نے کہا،''ہم کسانوں کے احتجاج کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ ہم اس میں مداخلت نہیں کریں گے۔ ہم مرکز سے جاننا چاہیں گے کہ کیا مظاہروں کو اس انداز میں تبدیل کیاجا سکتا ہے، جس سے شہریوں کی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔"

الزام اور جوابی الزام

سپریم کورٹ نے متنازعہ قوانین کے خلاف اعتراضات کو حل کرنے کے لیے حکومت اور کسانوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے قیام کا مشورہ بھی دیا۔ لیکن کسان یونینوں نے اسے مسترد کرتے ہو ئے کہا کہ کمیٹی کی تشکیل ان کے مسئلے کا حل نہیں ہے کیوں کہ وہ ان کا مطالبہ ہے کہ تینوں قوانین واپس لیے جائیں۔

کسانوں کے احتجاج میں شامل سوراج انڈیا نامی تنظیم کے رہنما یوگیندر یادو نے ٹوئٹ کر کے کہا، ”عدلیہ ان قوانین کی عملیت اور لازمیت کو طے نہیں کر سکتی۔ یہ کسانوں اور ان کے منتخب رہنماؤں کے درمیان کا معاملہ ہے۔ عدالت کی نگرانی میں مذاکرات غلط راستہ ہوگا۔"

دوسری طرف مودی حکومت کے وزراء اس تحریک کی پشت پر بیرونی طاقتوں کا ہاتھ ہونے کے الزامات دہرا رہے ہیں۔ پٹرولیم کے وفاقی وزیر دھرمیندر پردھان نے ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا،''اس تحریک کے پیچھے اس بھارت مخالف اور جاگیردارانہ طاقتوں کا ہاتھ ہے جو قومیت اور خود انحصار بھارت کے نظریات کے بھی مخالف ہیں۔‘‘

سیکولر بھارتی آئین کا مستقبل خطرے میں، نوبل انعام یافتہ امرتیا سین

’غلام‘ بن جانے کا خوف

حکومت نے زرعی قوانین کے حوالے سے کسانوں کی 'غلط فہمیوں کو دور کرنے‘ کے لیے دو کروڑ سے زائد کسانوں کو ایک کتابچہ بھیجا ہے، جس میں کسانوں کے متعلق وزیر اعظم نریندر مودی کے اقدامات کا بالتفصیل ذکر ہے۔

بھارت کی 60 فیصد آبادی زراعت پر منحصر کرتی ہے۔ اس کے باوجود ملک کے کئی حصوں میں ہر سال پانچ ہزار سے زائد کسان خودکشی کرتے ہیں۔ بعض زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے زرعی قوانین ملک کے بقیہ حصوں کے لیے تو شاید ٹھیک ہوں لیکن بڑی مقدار میں گیہوں اور چاول اگانے والے پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کو ان میں اپنا نقصان دکھائی دے رہا ہے۔

مظاہرہ کرنے والے کسانوں کا کہنا ہے کہ نئے قوانین کی وجہ سے وہ بڑے تاجروں او رکارپوریٹ گھرانوں کے 'غلام‘ بن کر رہ جائیں گے۔ گوکہ حکومت، کسانوں کے ایک اہم مطالبہ یعنی اناج کی کم از کم قیمت کی ضمانت دینے کا وعدہ کر رہی ہے لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت کے وعدوں کا سابقہ ریکارڈ کافی خراب رہا ہے۔

حکومت کے بعض حامیوں کا بھی کہنا ہے کہ نئے زرعی قوانین بنانے سے پہلے حکومت کو متعلقہ فریقین کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے تھی۔ پارلیمان میں بھی اس پر خاطر خواہ بحث کرائے بغیر صرف پندرہ منٹ کے اندر جس انداز میں حکومت نے اسے منظور کرایا اس پر بھی اپوزیشن جماعتوں کو اعتراض ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں