1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں جسم فروشی کے لیے قانونی جنگ

امتیاز احمد22 جولائی 2015

کنکریٹ کی ایک سلیب پر بیٹھی سونیتا دیوی اپنے ہونٹوں پر سرخ لِپ اسٹک لگاتے ہوئے اپنے مرد گاہکوں کے لیے تیار ہو رہی ہے۔ غیر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق بھارت میں تقریباﹰ تیس لاکھ سیکس ورکرز ہیں۔

https://p.dw.com/p/1G3LS
Indien Prostitution Gesetz
تصویر: Getty Images/AFP/P. Singh

سونیتا دیوی دارالحکومت کی بدنام سڑک ’جی بی روڈ‘ کے کنارے پر واقع ایک بوسیدہ کوٹھے پر بیٹھی اپنے گاہکوں کی منتظر ہے۔ نئی دہلی کے اس بازارِ حسن سے تعلق رکھنے والی سونیتا دیوی کا کہنا تھا، ’’ہم تو مردوں کے پاس نہیں جاتیں، وہ ہمارے پاس آتے ہیں۔ دوسرے شعبوں کی طرح ہم بھی اپنی روزی عزت کے ساتھ کمانا چاہتے ہیں۔‘‘ سبز اور کریم رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس پینتیس سالہ دیوی بھارت میں موجود دس لاکھ سیکس ورکرز کی طرح اس عدالتی فیصلے کا انتظار کر رہی ہیں، جس کے تحت یہ امید کی جا رہی ہے کہ جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔

بھارت میں ایک جسم فروشی کے لیے عام طور پر ’’کوٹھا چلانا‘‘ استعمال ہوتا ہے اور یہ کسی حد تک جائز خیال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بازار حُسن میں رقص پیش کرنا بھی قانونی طور پر جائز ہے۔ یہ قانون بھارت کی آزادی سے پہلے برطانوی راج میں بنایا گیا تھا اور مبہم ہونے کی وجہ سے جسم فروشی کی قانونی حیثیت سے متعلق خاموش ہے۔ بھارتی سیکس ورکرز امید لگائے بیٹھے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ہی ان کے ساتھ حکومتی سطح پر ہونے والے امتیازی سلوک کا خاتمہ ہوجائے گا۔

Indien Prostitution Prostituierte und Kunde
تصویر: AP

ان سیکس ورکرز کے مطابق بھارتی پولیس ان کے ساتھ ناانصافی کرتی ہے، انہیں آئے روز نشانہ بنایا جاتا ہے، رشوت لی جاتی ہے اور وہ پولیس کے اس رویے سے تنگ آ چکے ہیں۔ پولیس جسم فروش خواتین کو ’اصلاح گھروں‘ میں بھیج دیتی ہے، جہاں صورتحال جیلوں سے بھی بدتر ہوتی ہے۔ بھارتی پولیس نے سن 2013 کے دوران غیر قانونی جنسی تعلقات کے الزام میں دو ہزار آٹھ سو خواتین اور چار ہزار آٹھ سو مردوں کو گرفتار کیا تھا۔

دنیا بھر میں جسم فروشی کی بلیک مارکیٹ پر نظر رکھنے والی تنظیم ’ہیوک سکوپ‘ کے مطابق بھارت میں سکیس ورکرز کی تعداد تقریباﹰ تیس لاکھ ہے۔ جسم فروشی کے حق میں کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس دنیا میں زیادہ تر مرد و خواتین اپنی مرضی سے کام کر رہے ہیں۔ انہیں نہ تو اسمگل کیا گیا ہے اور نہ ہی ان سے یہ کام زبردستی کروایا جا رہا ہے۔

دوسری جانب خواتین کی اسمگلنگ اور ان سے جبری طور پر جسم فروشی کروانے والے گروپوں کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جسم فروشی کو قانونی حیثیت ملتے ہی انسانی اسمگلنگ میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اب بھی قحبہ خانوں میں دور دراز کے علاقوں سے خواتین اور کم عمر لڑکیوں کو لایا جاتا ہے۔ غربت اور لاعلمی کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

چار برس پہلے بھارتی سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ کی درخواست دائر کی گئی تھی، جس کے بعد سپریم کورٹ نے ایک پینل تشکیل دیا تھا تا کہ وہ جسم فروشی کی صنعت کا جائزہ لے اور موجودہ قانون میں کوئی ممکنہ تبدیلی کی جا سکے۔