1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'بھارت میں مسلمانوں کو قربانی کا بکرابنا یا جارہا ہے'

15 مئی 2020

مذہبی آزادی سے متعلق ایک امریکی ادارے نے بھارت سے کہا ہے کہ وہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے بجائے انہیں اپنے حقوق کے استعمال کی آزادی دے۔

https://p.dw.com/p/3cHRd
Indien | Neu-Dehli | Protest von Muslimischen Frauen
تصویر: DW/M. Javed

مذہبی آزادی پر نگاہ رکھنے والے ادارے’یونائٹیڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم‘ (یو ایس سی آئی آر ایف) نے کووڈ 19 کی وبا کے دوران بھارتی مسلمانوں کی گرفتاریوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور انہیں رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے اسی لیے اسے ''انتہائی تشویش والے ممالک“ کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔

یو ایس سی آئی آر ایف نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا ہے، ''کووڈ 19 کے بحران کے دوران ایسی اطلاعات ہیں کہ بھارتی حکومت ان مسلم کارکنان کو گرفتار کر رہی ہے جو شہریت قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، اس میں صفورہ زرگر بھی شامل ہیں جو اس وقت حمل سے ہیں۔ یہ وقت بھارت کو ایسے ضمیر کے قیدیوں کو نشانہ بنانے کے بجائے رہا کرنے کا ہے، جو احتجاج کے لیے اپنے جمہوری حقوق کا استعمال کر رہے ہیں۔''   

یو ایس سی آئی آر ایف نے  ایک دیگر ٹویٹ میں کہا، ''بھارت میں 2019 کے دوران مذہبی آزادی میں زبردست گرواٹ آئی، بدقسمتی سے کووڈ 19 کے بحران کے دوران بھی مسلمانوں کو قربانی کا بکرابنا کر اسی رجحان کا مظاہرہ کیا گیا۔ جس کی وجہ سے اس نے بھارت کو ''انتہائی تشویش والے ممالک کی فہرست میں رکھنے کی سفارش کی ہے۔''

امریکی ادارے نے اپنی ٹویٹ کے ساتھ وہ تفصیلات بھی شائع کی ہیں جن کی بناپر بھارت کو انتہائی تشویش والے ممالک کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔ اس میں شہریت قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو حکومت کی طرف سے دبانے، دہلی کے مسلم مخالف فسادات میں پولیس کا جانبدارانہ رویہ، بی جے پی رہنماؤں اور بعض وزراء کے مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز بیانات اور بڑے پیمانے پر ہجومی تشدد کے واقعات کو شامل کیا گیا ہے۔

Indien Neu Delhi | Protest von Jamia Milia Islamia-Studenten gegen Staatsbürgerschaftsgesetz, CAB, CAA
گزشتہ ایک ماہ کے دوران پولیس نے ان نوجوان مسلم طلبہ و طالبات کو گرفتار کیا ہے جو شہریت قانون کے خلاف تحریک میں روح رواں تھے تصویر: DW/AnsariA

امریکی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ  2019 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے ”اقلیتوں کے خلاف تشدد کی کھلی چھوٹ اور ان کے مذہبی مقامات کو بلا روک ٹوک نشانہ بنانے کی اجازت دے دی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز اور تشدد کو بھڑکانے والے بیانات کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے بلکہ اس کے رہنما بھی اس میں ملوث ہیں۔''

یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران پولیس نے ان نوجوان مسلم طلبہ و طالبات کو گرفتار کیا ہے جو شہریت قانون کے خلاف تحریک میں روح رواں تھے۔ شرجیل امام، عمر خالد، صفورہ زرگر اور میران حیدر یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسکالرز ہیں اور ان سب کو دلی کے ان فسادات کی سازش کے لیے گرفتار کیا گیا ہے جو اصل میں مسلمانوں کے خلاف برپا ہوئے تھے۔ انہیں ملک سے بغاوت اور ایسے سخت قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا ہے کہ ان پر مقدمہ چلائے بغیر برسوں جیلوں میں رکھا جا سکتا ہے۔

دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ظفرالاسلام خان کہتے ہیں کہ دلی فسادات کے سلسلے میں پولیس نے 13 سو مسلمانوں کو گرفتار کر رکھا ہے۔ دلی پولیس نے حال ہی میں مسٹر خان کی ایک متنازعہ ٹویٹ کے لیے ان کے خلاف بھی بغاوت کا مقدمہ درج کیا ہے۔ الزام یہ ہے کہ انہوں نے بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے تعلق سے کویتی حکومت کی تشویش پر ایک ٹوئٹ کرکے کویت کا شکریہ ادا کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اب ''دنیا ان زیاتیوں کا نوٹس تو لینے لگی ہے۔“

ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ''یہ گرفتاریاں اور مسلمانوں کے خلاف تمام کارروائیاں حکومت کی ایما پر ہورہی ہیں۔ ہونہار مسلم نوجوانوں کی زندگیاں برباد کرنے کے لیے انہیں نشانہ بنا یا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنانے میں بھی حکومت کا ہاتھ ہے۔ شہریت قانون کے خلاف مسلمانوں کی پرامن تحریک تھی اس کو بدنام کرنے اور فسادات کا الزام ا مسلمانوں کے سر تھوپنے کی یہ حکومت کی دانستہ کوششیں ہیں۔''

Indien | Neu-Dehli | Protest von Muslimischen Frauen
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف دنیا میں کہیں بھی آواز اٹھائی جا سکتی ہے۔ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔''ڈاکٹرظفرالاسلام خانتصویر: DW/M. Javed

اپریل کے اواخر میں جب امریکی ادارے نے بھارت کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے مدنظر’خاص تشویش والے ممالک‘ کی فہرست میں شامل کیا تھا تو بھارت نے اس رپورٹ کو جانبداری پر مبنی اور بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت بتاکر مسترد کر دیا تھا۔

 دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ظفرالاسلام تاہم امریکی ادارے کی دلیل کو درست نہیں مانتے۔ان کا کہنا ہے کہ ''انسانی حقوق کے معاملات عالمی نوعیت کے حامل ہوتے ہیں اور اس طرح کے کیسز بین الاقوامی جورڈیکشن میں آتے ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف دنیا میں کہیں بھی آواز اٹھائی جا سکتی ہے۔ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔''ڈاکٹر خان کا کہنا ہے کہ گر چہ کئی عالمی اداروں نے بھارتی حکومت کی ان اقدامات کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے تاہم ابھی اس کے اثرات مرتب نہیں ہوئے ہیں۔

 مبصرین کا کہنا ہے کہ حال ہی میں حکومتی نمائندوں نے اس صورت حال کے حوالے سے مسلم دانشوروں سے بات چیت کی ہے اور ان سے حالات کو بہتر کرنے کے لیے صلاح و مشورہ کیا، جس سے لگتا ہے حکومت کو اب تشویش ہونے لگی ہے۔ذرائع کے مطابق پچھلے دنوں اس طرح کی ایک میٹنگ ہوئی جس میں کئی اہم مسلم شخصیات شامل ہوئیں۔  اس میں مسلمانوں کے درمیان پائی جانے والی موجودہ بے چینیوں کا ذکر کیا گیا اور جب بی جے پی کے ایک نمائندے نے سوال کیا کہ اسے کیسے دور کیا جا سکتا ہے تو ایک مسلم رہنماکا کہناتھا کہ یہ تو حکمراں بی جے پی کو ہی بتانا ہوگا کہ اس کی منشاء کیا ہے۔ 

بھارتی کریک ڈاؤن سے کشمیر میں مذہبی آزادی بھی متاثر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں