1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں کورونا وائرس سے بڑھتی مذہبی کشیدگی

21 اپریل 2020

اروندھتی رائے نے بھارتی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ وبا کے دور میں سماجی بے چینی کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے۔ رائے کے مطابق وہ مسلمانوں کے خلاف نسل کش رویے کو بڑھتا دیکھ رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3bDbM
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے مشہور بھارتی مصنفہ اروندھتی رائے نے بھارت میں حکمران سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا یہ کووڈ انیس کی وبا سے پیدا ہونے والے بحران کے تناظر میں مسلم آبادی کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے موجودہ بھارتی حکومتی رویے کو نازی دور کے طرز کا قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال بھارت میں نسل کشی کی جانب بڑھ رہی ہے۔

رائے کے مطابق بھارت میں کورونا وائرس کی وبا نے بہت سے ڈھکے چھپے سنگین معاملات کو بھی عیاں کر دیا ہے اور وبا کے ساتھ ساتھ نفرت اور بھوک کے بحرانوں کو بھی بھارتی عوام کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ انٹرویو میں نفرت کے بحران کا اشارہ مسلمان آبادی کا جانب ہے، جس کو ایک دو ماہ قبل بھارتی دارالحکومت میں شہریت بل کی مخالفت میں شروع ہونے والے مذہبی فسادات کے دوران قتلِ عام کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اروندھتی رائے کے انٹرویو کے مندرجات پر بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے حامیوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ان پر کڑی تنقید کی ہے۔ بی جے پی کے ترجمان نالین کوہلی نے اروندھتی رائے کے خیالات کو پوری طرح مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ مکمل طور پر نسل پرستانہ، من گھڑت، غلط اور گمراہ کن ہیں۔ کوہلی کے مطابق یہ خیالات عوام کے سرکش بنانے کے زمرے میں آتے ہیں۔

مذہبی تقسیم گہری ہوتی ہوئی

ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بعض سیاسی ماہرین کا مشترکہ بیانیہ تھا کہ موجودہ حالات ظاہر کرتے ہیں کہ بھارتی حکومت دانستہ طور پر گروہی تناؤ کو نسلی کشی کی جانب لے کر جا رہی ہے۔ نئی دہلی کے انسٹیٹیوٹ برائے اکنامک گروتھ کے ماہر سماجیات سنجے سری واستو کا کہنا ہے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ بھارت میں مسلم آبادی کو رسوا کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

اس مناسبت سے نئی دہلی میں مقیم ایک اور ادیب نیلانجن مکھو پدائے کہتے ہیں کہ یہ قبل از وقت ہے کہ آج کے بھارت میں مسلمانوں کو نازی جرمنی کے یہودیوں جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔ مکھو پدائے ایک کتاب ' نریندر مودی: ایک انسان۔ ایک وقت‘ کے مصنف ہیں۔ انہوں نے اس کا اعتراف کیا کہ سن 1947 سے بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کی تاریخ موجود ہے۔

زہریلا سماجی ماحول

امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک وُوڈرو وِلسن انٹرنیشنل سینٹر سے وابستہ جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کُوگلمین کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اروندھتی رائے کا بیان کسی حد تک اشتعال انگیزانہ ہے اور سب انہیں ان کے ایسے نظریات کی وجہ سے جانتے ہیں۔ کوگلمین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کووڈ انیس کے حوالے سے بھارتی حکومت کا ردعمل ایک نامناسب اور زہریلے سماجی ماحول کے جواب میں ہے۔ امریکی تھنک ٹینک کے مبصر کے مطابق بی جے پی کے اعلیٰ لیڈروں کے مسلم مخالف بیانات پر نریندر مودی کی خاموشی نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی کو تقویت دی ہے۔

کورونا وبا پھیلنے کی ذمہ داری مسمانوں پر عائد

بھارت میں کورونا وائرس کی وبا کے ساتھ ساتھ لوگوں میں ہیلتھ سیکٹر کے کمزور ہونے کے خوف کے ساتھ ساتھ مذہبی عدم اعتماد نے بھی معاشرتی امتیازی رویوں کو تقویت دی ہے۔ سارے بھارت میں ایسی رپورٹنگ کی گئی کہ ملک میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے ذمہ دار مسلمانوں کی مذہبی تحریک تبلیغی جماعت کے کارکن ہیں۔

بھارتی حکام نے اس جماعت کے کثیر اراکین میں وائرس کی تشخیص کی تھی۔ اس باعث تبلیغی جماعت کے کارکنوں کی گرفتاریاں بھی کی گئی ہیں۔

سوشل میڈیا پر گمراہ کن خبروں کا انبار

یہ تاثر بھی ابھرا ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر مسلمانوں کے خلاف من گھڑت معلومات اور غلط خبروں کے پھیلاؤ میں تسلسل ہے۔ بھارتی ادیب نیلانجن مکھو پدائے کا کہنا ہے کہ ایسا بتایا جاتا ہے کہ مسلمان ایک بیماری ہیں اور موجودہ صحت کے خطرناک بحران کے ذمہ دار ہیں۔ اپریل کے شروع میں بھارتی حکومت نے اعتراف کیا تھا کہ کووڈ انیس کی وبا کے حوالے سے چند گروہوں اور عقیدوں کے حامل گروپوں کو بدنام کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ حکومت نے لوگوں کو متنبہ کیا کہ وہ ایسی گمراہ کن خبریں سوشل میڈیا پر شائع کرنے سے اجتناب کریں۔

یہ امر اہم ہے کہ ہپبلک ہیلتھ حکام نے واضح کیا ہے کہ کووڈ انیس کی وبا کے پھیلاؤ کے حوالے سے اقلیتی گروپوں کو نشانہ بنانا کسی بھی طور پر جائز نہیں ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران مسلمانوں اور ہندوؤں میں اتحاد و اتفاق وقت کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنے سے ملک میں گروہوں کے بیچ ہم آہنگی اور بھائی چارے میں اضافہ ہو گا۔ مائیکل کُوگلمین کا خیال ہے کے ایسا ہونا خام خیالی ہے کیونکہ بی جے پی کا ایجنڈا مذاہب میں ہم آہنگی پیدا کرنا نہیں ہے۔

مُرلی کرشنن (ع ح، ب ج)

عمران خان کا الزام بے تکا اور بے بنیاد: بھارت

بھارتی مسلمانوں کی صورت حال: بی جے پی کی طرف سے ارون دتی رائے کے الزامات کی تردید