1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت نے دہشتگردی سے متعلق پاکستانی الزامات کو مسترد کر دیا

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
16 نومبر 2020

بھارت نے دہشتگردانہ کارروائیوں کے لیے مالی اعانت اور شدت پسندوں کو تربیت دینے جیسے پاکستانی الزامات کی ترید کی ہے۔ اس کا دعوی ہے کہ یہ پاکستان کی بھارت کے خلاف پروپیگنڈے کی ایک نا کام کوشش ہے۔

https://p.dw.com/p/3lLhw
Symbolbild | Indien Pakistan Freundschaft
تصویر: picture-alliance/dpa/epa/H. Tyagi

بھارت کا کہنا ہے کہ پاکستان نے نئی دہلی پر اپنے خلاف دہشتگردی کی اعانت اور شدت پسندی کو فروغ دینے کے جو الزامات عائد کیے ہیں  وہ پوری طرح سے بے بنیاد ہیں۔ اتوار کی شام کو نئی دہلی میں وزات خارجہ کے ترجمان انوراگ سری واستوا نے پاکستانی موقف کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ''بین الاقوامی برادری دہشت گردی سے متعلق اسلام آباد کے کردار سے واقف ہے اس لیے بہت کم لوگ ان الزامات پر یقین کریں گے۔''

اس سے قبل سنیچر کو پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں بھارت کی دخل اندازی اور دہشت گردی میں مبینہ معاونت کی تفصیلات جاری کی تھیں۔ پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ملک کے اندرونی معاملات میں بھارتی مداخلت اور اس کی جانب سے پاکستان میں دہشتگردی کو ہوا دینے سے متعلق ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔

اس کے رد عمل میں بھارت نے کہا کہ پاکستان نے اس سلسلے میں جو بھی دعوے کیے ہیں اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ سری  واستوا کا کہنا تھا کہ یہ، ''نام نہاد ثبوت من گھڑت اور تخیل پر مبنی ہیں۔ چونکہ عالمی برادری پاکستانی حربوں سے واقف ہے اور خود پاکستانی قیادت بھی شدت پسندی کی پذیرائی کی بات تسلیم کر چکی ہے اس لیے اس طرح کی مایوس کن کوششوں پر بہت کم ہی لوگ یقین کریں گے۔''

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر شدت پسندی کا چہرہ اسامہ بن لادن بھی پاکستان ہی میں پائے گئے تھے اور وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمان میں جن کی شہید کہہ کر تعریف کی تھی۔ نئی دہلی کا کہنا ہے کہ پاکستان بھارت کے خلاف اس طرح کی باتیں اس لیے کر رہا ہے تاکہ انتشار کی شکار اپنی اندرونی سیاست سے لوگوں کی توجہ ہٹا کرا سکے۔ 

Pakistan Islamabad | PK Konflikt Indien  Babar Iftikhar  / Shah Mahmood Qureshi
تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

اس موقع پر بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے پاکستان پر امن و سکون کے لیے 2003 میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا بھی الزام عائد کیا اور کہا کہ پاکستان اب بھی شدت پسندوں کی دراندازی کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے لیے ایل او سی پر تعینات اس کے فوجی مدد کر رہے ہیں۔ 

اس سے قبل پاکستانی حکام نے کہا تھا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کو  فروغ دینے اور دہشت گردوں کو تربیت دینے کے لیے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتی ہیں، جن کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا اور سی پیک کو نقصان پہنچانا ہے۔ پاکستانی فوج نے بھارت پر افغانستان میں 66 اور  بھارت میں 21 ایسے تربیتی کیمپ چلانے کا الزام عائد کیا تھا جس میں شدت پسندوں کو پناہ دی جاتی ہے پھر انہیں تربیت  دیکر  دہشتگردانہ کارروائیوں کے لیے پاکستان میں داخل کیا جاتا ہے۔

اس کا مزید کہنا تھا کہ اس کام کے لیے کابل میں بھارتی سفارت خانہ اور بھارتی قونصل خانہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں اس کے پاس پختہ شواہد موجود ہیں جنہیں وہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے سامنے پیش کرے گا۔ 

’یہ علاقہ کبھی پاکستان کا حصہ تھا‘

افغانستان کی تردید

افغان حکومت نے بھی پاکستان کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں اتوار کو ہی افغان حکومت نے اپنا ایک بیان جاری کر کے کہا، ''دہشتگردی سے بری طرح متاثر ہونے والے ایک ملک کی حیثیت سے ہم بلا تفریق دنیابھر میں ہر جگہ ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے پر عزم ہیں اور ہم کبھی بھی دوسرے ملک کے خلاف تباہ کن سرگرمیوں کے لیے اپنے ملک کی سرزمین کا استعمال قطعی نہیں ہونے دیں گے۔''

واضح رہے کہ سنیچر کو پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ بھارت نے ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے خلاف محاذ بنانے کی بھرپور کوشش کی لیکن منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے حوالے سے دنیا کو بھارت کا اصلی چہرہ بھی دکھانا بہت ضروری ہے۔

مسٹر قریشی کا کہنا تھا کہ بھارت کی طرف سے پاکستان میں معصوم شہریوں کے قتل و غارت گری ریاستی دہشت گردی ہے، جس کا دنیا کو نوٹس لینا چاہیے۔ اس موقع پر پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے بطور ثبوت کچھ ایسی دستاویزات پیش کیں جن سے بقول ان کے پاکستان میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی اور مالی معاونت کا پتہ چلتا ہے۔

اس پریس کانفرنس میں کچھ آڈیو کلپس بھی سنوائی گئی تھیں، جن میں حکام کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کے اہلکاروں کو پاکستان میں دہشت گردی سے متعلق ہدایات دیتے سنا جا سکتا تھا۔ میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ بھارت کی طرف سے حالیہ برسوں میں پاکستان میں ریاست مخالف شدت پسند گروہوں کو ہتھیار اور پیسہ فراہم کرنے میں اضافہ ہوا ہے۔

کشمیر: کیا ایل او سی پر بسے گاؤں کے حالات بدل جائیں گے؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں