1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کوکوروناویکسین کا اعلان کرنے کی اتنی جلد بازی کیوں ہے؟

جاوید اختر، نئی دہلی
6 جولائی 2020

بھارت نے 15 اگست تک کورونا ویکسین پیش کرنے کا اعلان کرکے سب کو حیرت زدہ کردیا ہے لیکن ماہرین اسے ناقابل عمل قرار دے رہے ہیں اور یہ سوال بھی پوچھا جارہا ہے کہ بھارت کو ویکسن کا اعلان کرنے کی اتنی جلد بازی کیوں ہے؟

https://p.dw.com/p/3er1o
Symbolfoto Impfstoff
تصویر: picture-alliance/Geisler-Fotopress/C. Hardt

بھارت کے بہترین سائنس دانوں کی تنظیم انڈین اکیڈمی آف سائنسز نے متنبہ کیا ہے کہ مکمل سائنسی طریقہ کار اور معیار پر عمل کیے بغیر کوئی ویکسین بازار میں پیش کرنا نہ صرف ناقابل عمل ہے بلکہ یہ عوامی صحت کے ساتھ کھلواڑ کرنا ہوگا۔

دنیا میں اس وقت کورونا ویکسین کی تیاری کے 120 پروگراموں پر دن رات کام چل رہا ہے۔ بھارت میں بھی کئی حکومتی اور نجی ادارے کورونا کے لیے ویکسین تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں سبقت لے جانے والا ملک یا ادارہ مالا مال ہوجائے گا۔ بھارت میں تاہم جہاں حکومت کے ہر اقدام کے پیچھے کوئی نہ کوئی سیاسی سبب بھی کارفرما ہوتا ہے، کورونا ویکسین بھی اس سے مستشنی نہیں ہے۔

اعلان پر تنازعہ

بھارت میں کورونا ویکسین کی تیاری نے اس وقت تنازعے کی صورت اختیار کرلی جب طبی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والے حکومتی ادارے انڈین کاونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کے سربراہ نے اعلان کیا کہ کاونسل نے بھارت کی یوم آزادی 15 اگست تک اس ویکسین کو لانچ کرنے کا ارادہ کیا ہے۔

 اس کا نام COVAXIN رکھا گیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ اس ویکسین کے انسانوں پر تجربات کے لیے بارہ اداروں کو منتخب کیا گیاہے اور ان کو ہدایت دی گئی ہے کہ انسانو ں پر تجربات میں تیزی لائیں تاکہ اس ویکسین کو 15 اگست تک لانچ کردیا جائے۔ آئی سی ایم آر کے سربراہ نے اپنے خط میں یہ دھمکی بھی دی تھی کہ جن اداروں نے ایسا نہیں کیا ا ن کے ساتھ ’انتہائی سختی‘ سے نمٹا جائے گا۔

Arcturus Therapeutics, ein Unternehmen für RNA-Arzneimittel, erforscht einen Impfstoff gegen das neuartige Coronavirus (COVID-10)
دنیا بھر میں کورونا ویکسین کی تیاری پر کام چل رہا ہےتصویر: Reuters/B. Guan

جب اس بیان پر مختلف سائنسی اور دیگر حلقوں سے اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوا تو آئی سی ایم آر نے ایک دوسرا بیان جاری کرکے کہا کہ 15 اگست کوئی حتمی تاریخ نہیں ہے۔ لیکن تنازعہ اس وقت مزید پیچیدہ ہوگیا جب بھارت کی وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی نے اپنے ایک سابقہ بیان میں سے اس جملے کو حذف کردیا جس میں کہا گیا تھا کہ COVAXIN سمیت کسی بھی ویکسین کو عوامی استعمال کے لیے 2021 سے پہلے پیش کرنا ممکن نہیں ہے۔

کہیں یہ سیاست تو نہیں؟

اس نئی پیش رفت کے بعد حکومت کے خلاف احتجاج اور نکتہ چینی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ حکومت کے ناقدین نے الزام لگایا کہ 15 اگست تک کورونا ویکسین کا اعلان کرنا سیاست کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ لیکن اس سے بھارت کا اعتبار اور وقار بری طرح مجروح ہوگا۔ خیال رہے کہ 15 اگست کو یوم آزادی کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم لال قلعہ کی فصیل سے روایتی خطاب کرتے ہیں۔ جس میں بالعموم حکومت کے کارناموں اور مستقبل کے اہم منصوبوں کا ذکر ہوتا ہے۔


تجزیہ کار یہ سوال کررہے ہیں کہ آیا آئی سی ایم آر نے یہ اعلان حکومت کی طرف سے دباو کی وجہ سے تو نہیں کیا۔ کیوں کہ آئندہ اکتوبر۔ نومبر میں بہار میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے مدنظر اس طرح کے کسی اعلان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

اپوزیشن کانگریس نے حکومت کو اس طرح کے کسی اعلان کے حوالے سے متنبہ کیا ہے۔ کانگریس کے سینئر رہنما کپل سبل نے ایک ٹوئٹ میں کہا ”آئی سی ایم آر کا 15اگست کو کورونا وائرس کے ویکسین کا دعوی غیر سائنسی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ مہا بھارت 18دنوں میں ختم ہوگئی تھی، 21دنوں کا انتظار کریں اور اس جنگ کو گو کورونا، گو کورونا کے نعرے کے ساتھ جیتا جائے گا۔ گائے کے گوبر سے کینسر کا علاج اور گنیش کے سر کو سرجری کا معجزہ قرار دینے کی ذہنیت سے مسائل کا حل کبھی نہیں نکل سکتا ہے۔“

بائیں بازو کے رہنما سیتا رام یچوری نے اپنے ٹوئٹ میں کہا”سائنس دانوں کو نتائج پیش کرنے کے لیے ’دباو‘ ڈالا جارہا ہے تاکہ وزیر اعظم نریندر مودی 15اگست کو اعلان کرسکیں۔”صحت اور سیفٹی کے تمام ضابطوں کو نظر انداز کرکے کووڈ 19کے لیے دیسی ویکسین کی تیاری کا اعلان کرنا انتہائی بھیانک ہوگا اور انسانوں کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔“

Indien Coronavirus-Ausbruch
بھارت میں کورونا ویکسین کی تیاری نے اس وقت تنازعے کی صورت اختیار کرلی ہے۔تصویر: Reuters/A. Fadnavis

امیدیں اور توقعات غیر حقیقی

خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت کے شرائط کے مطابق کسی ویکسین یا دوا کو مارکیٹ میں پیش کرنے سے پہلے تین تجرباتی مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں کم از کم بیس سے تیس ہزار لوگوں پر اس کا تجربہ کیا جاتا ہے لیکن اتنی بڑی تعداد میں لوگوں پر تجربہ کرنے سے قبل یہ امر یقینی بنانا پڑتا ہے کہ اس کا کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ویکسین کی تیاری میں بعض اوقات برسوں ہی نہیں بلکہ عشروں لگ جاتے ہیں۔ مثال کے طورپرتین عشروں سے جاری تحقیق کے باوجود ایچ آئی وی کے لیے ویکسین کی تیاری ابھی بھی تیسرے مرحلے میں ہے۔ حالانکہ ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا ویکسین کی تیاری پر جتنی تیزی سے کام ہورہا ہے،امید کی جانی چاہیے کہ 2021 کے وسط تک اس کا ویکسین دستیاب ہوجائے گا۔ تاہم انہیں بھی یہ مکمل یقین نہیں ہے کہ یہ ویکسین پوری طرح کامیاب ثابت ہوگا۔

بھارت کے گیارہ سو معروف سائنس دانوں کی تنظیم انڈین اکیڈمی آف سائنس نے انہی اسباب کی بنا پر کورونا ویکسین کا اعلان کرنے سے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ”اکیڈمی کا یہ ٹھوس یقین ہے کہ کسی مقررہ وقت کا اعلان غیر عملی ہے۔ وقت کی حد کے اعلان نے ہمارے عوام کے ذہنوں میں غیر حقیقی امیدیں اور توقعات پیدا کردی ہیں۔“

کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کی تیاری

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں