1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت کی جانب سے پاکستان سے بات چیت پر رضامندی کی تردید

جاوید اختر، نئی دہلی
20 جون 2019

بھارت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے رضامندی ظاہر کرنے کے حوالے سے پاکستانی میڈیا کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے آج جمعرات کو اسے یکسر بے بنیاد قرار دے دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3KmPJ
Indien Einweihung von Premierminister Modi in Neu-Delhi
تصویر: picture-alliance/Photoshot

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے پہلے ایک بیان جاری کرکے اور بعد میں معمول کی میڈیا بریفنگ میں اس حوالے سے پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں واضح لفظوں میں تردید کی کہ بھارت پاکستان کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔

 پاکستان میڈیا میں ایسی خبریں تھیں کہ بھارت جنوبی ایشیائی خطے میں امن اور خوشحالی کے لیے پاکستان اور دیگر علاقائی ملکوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے پاکستانی میڈیا کی ان رپورٹوں کو مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے جوابی خط کوتوڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا،”وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ ڈاکٹر سبرامنیم جے شنکر نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے موصول ہونے والے مبارک باد کے پیغامات کے جواب میں صرف مروجہ روایت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان پیغامات کے جواب دیے تھے۔ اپنے پیغامات میں مسٹر مودی اور ایس جے شنکر نے کہا تھا کہ بھارت، پاکستان سمیت اپنے تمام پڑوسیوں سے نارمل اور باہمی تعاون کے تعلقات کا خواہاں ہے۔"

رویش کمار کا مزید کہنا تھا،”بھارتی وزیر اعظم نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ باہمی تعلقات کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ اعتماد و بھروسہ کا ماحول بنایا جائے جو دہشت گردی، تشدد اور بدنیتی سے پاک ہو۔ وزیر خارجہ نے بھی دہشت گردی اور تشدد کے سائے سے آزاد ایک سازگار ماحول بنانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔" رویش کمار نے مزید کہا،”پاکستان کے حوالے سے ہمارے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وہ جب تک دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اور معتبر اقدامات نہیں کرے گا اس وقت تک اس سے بات چیت ممکن نہیں ہے۔ ہمیں دکھاوے کے اقدامات سے بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔‘‘

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے پاکستانی میڈیا کو بھی آڑے ہاتھو ں لیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی میڈیا خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی ذہنیت میں مبتلا ہے۔ انہو ں نے بھارتی صحافیوں کو پاکستانی خبروں پر اعتبار کرنے سے قبل وزارت خارجہ سے ان کی تصدیق کرلینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی طرف سے بار بار فیک نیوز دینے کے کوشش ہوتی ہے۔

عمران اور مودی کی دوطرفہ فضائی کارروائیوں کے بعد پہلی گفتگو

مودی کی جیت، بھارتی مسلمان پریشان

خیال رہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کو دوسری مرتبہ اقتدار سنبھالنے اور انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی کامیابی پر پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اپنے ہم منصب کو خط ارسال کیا تھا جس میں خطے میں قیامِ امن کے لیے  کشمیر اور دہشت گردی سمیت دونوں ممالک کے عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کی پیش کش کی تھی۔ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد امید ظاہر کی تھی کہ دونو ں پڑوسی ملکو ں کے تعلقات معمول پر آجائیں گے۔

اس حوالے سے معروف تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاونڈیشن میں سینئر فیلو اور سفارتی امور کے ماہر سشانت سرین نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”دونو ں ملکوں کے تعلقات اس لیے معمول پر نہیں آسکے ہیں کیونکہ پاکستان نے آج تک دہشت گردی کے خلاف ٹھوس کارروائی نہیں کی ہے۔" تاہم ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں جو پالیسی ساز یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان سے بات چیت کا یہ مناسب وقت ہے وہ خام خیالی میں مبتلا ہیں۔یہ درست ہے کہ پاکستان کی اقتصادی حالت اس وقت خرا ب ہے لیکن وہ تباہی کے دہانے پر نہیں ہے، یہ درست ہے کہ پاکستان سفارتی لحاظ سے تنہا ہے لیکن یہ سوچنا بے وقوفی ہوگی کہ وہ بالکل الگ تھلگ ہوجائے گا۔‘‘

دریں اثنا وزیر اعظم مودی کی نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بھارتی صدر رام ناتھ کووند نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے آج روایتی خطاب کرتے ہوئے پاکستان کا نام تو نہیں لیا تاہم سرحد پار دہشت گرد ی کے ٹھکانوں پر کیے گئے سرجیکل اسٹرائیک اور پاکستان کے بالاکوٹ میں ایئر اسٹرائیک کا ذکرکیا اور واضح لفظو ں میں کہا کہ بھارت مستقبل میں بھی اپنی سلامتی کے لئے ضروری اقدامات کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔