1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت:جرمن زبان کا مسئلہ حل ہو جانے کی اُمید روشن

جاوید اختر، نئی دہلی17 نومبر 2014

جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ملاقات کے بعد بھارت کے پانچ سو سے زائد سرکاری سینٹرل اسکولوں میں جرمن زبان کی تعلیم کا تنازعہ حل ہوجانے کی اُمیدیں روشن ہوگئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Dog9
Deutschunterricht in Indien
تصویر: picture-alliance/dpa

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان سید اکبرالدین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندرمودی نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ بھارت کے سرکاری سینٹرل اسکولوں میں جرمن زبان پڑھانے کے حوالے سے حالیہ تنازعے کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ جرمن چانسلر نے برسبین میں وزیر اعظم مودی سے ملاقات کے دوران یہ معاملہ اٹھایا، جس پرنریندر مودی کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی چاہتے ہیں کہ بھارتی بچے زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھیں۔ اس لیے وہ بھارت کے موجودہ تعلیمی نظام اور ضابطوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جرمن زبان پڑھانے کے مسئلے کا ہر ممکن حل تلاش کریں گے۔

اس تازہ پیش رفت کے حوالے سے بھارت میں جرمن سفیر مائیکل اسٹائنر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ہمیں پورا یقین ہے کہ ہم اس مسئلے کا ایسا حل تلاش کرلیں گے، جوسب کے لیے سود مند ثابت ہوگا۔ بھارت کے بچے، بھارت اور جرمن سب فائدہ میں رہیں گے۔ میں اس سلسلے میں بھی پراعتماد ہوں کہ ہم بھارت سرکار کے ساتھ مل کر بھارتی قوانین کا احترام کرتے ہوئے ایک بہتر اور قابل عمل حل تلاش کرلیں گے۔‘‘

خیال رہے کہ سینٹرل اسکول یا کیندریہ ودیالیہ کا نظم دیکھنے والے کیندریہ ودیالیہ سنگٹھن اورگوئتھے انسٹی ٹیوٹ میکس مولر بھون دہلی کے درمیان2011ء میں ایک مفاہمت نامہ پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت تقریباََ گیارہ سو سینٹرل اسکولوں میں سے پانچ سو اسکولوں میں جرمن زبان غیر ملکی زبان کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ تاہم انسانی وسائل کے فروغ کی وزیر اسمرتی ایرانی نے پچھلے دنوں کہا تھا کہ یہ معاہدہ حکومت کے سہ لسانی فارمولہ کے خلاف ہے۔ لہذا جرمن زبان کی تعلیم پر پاپندی لگائی جائے۔ انہوں نے اس کی جگہ سنسکرت زبان پڑھانے کی بھی وکالت کی۔

جرمن سفیر مائیکل اسٹائنر کا کہنا تھا کہ سنسکرت پڑھانا اچھی بات ہے کیوں کہ یہ بھارت کی تہذیب و ثقافت سے جڑی ہوئی ہے۔ جرمنی میں بھی اس زبان کو نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیوں کہ دونوں زبانیں لسانی برادر ہیں جبکہ سنسکرت اور جرمن کی گرامر اور الفاظ میں کئی بھی طرح کی مماثلت ہے۔ تاہم اگر طلبا اس دور میں اپنے پیشہ ورانہ امکانات کو بہتر بنانے کے لیے کوئی جدید زبان سیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اس کا موقع بھی فراہم کیا جانا چاہیے۔

مائیکل اسٹائنر نے کہا کہ جرمنی اور بھارت کے رہنماؤں کی ملاقات کے بعد اب وہ اس مسئلے کے حل کے پہلے سے زیادہ پراعتماد ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’یہ اہم بات ہے کہ دونوں رہنماؤں نے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جونہ صرف ہمارے مفاد میں ہے، نہ صرف حکومت کے مفاد میں ہے بلکہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اور طلبا کے مفاد میں ہے۔‘‘

دریں اثناء بھارت کی سیاسی جماعتوں نے حکومت سے اپنے فیصلے پر جلد از جلد نظر ثانی کرنے کی اپیل کی ہے۔ عام آدمی پارٹی نے بی جے پی حکومت کے فیصلے پر نُکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ساتویں اور آٹھویں درجہ میں پڑھنے والے اسّی ہزار طلبا ذہنی پریشانی میں مبتلا ہوگئے ہیں کیوں کہ ان کے فائنل امتحانات ہونے میں صرف چار ماہ رہ گئے ہیں اور اگر فیصلہ واپس نہیں لیا گیا توان کے تعلیمی کیریئر کو نقصان پہنچے گا۔