1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: حجاب کے بعد اب 'دستار' کا تنازع

جاوید اختر، نئی دہلی
24 فروری 2022

کرناٹک میں حجاب کا تنازع ابھی تک حل نہیں ہوسکا ہے کہ ایک سکھ لڑکی کو 'دستار' پہننے کی اجازت نہیں دینے پر نیا تنازع پیدا ہوگیا ہے،جو شدت اختیار کرسکتا ہے۔ کالج انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ ہائی کورٹ کے حکم کے آگے مجبور ہیں۔

https://p.dw.com/p/47WZi
BdTD Indien Sikh Fateh Divas Amritsar
تصویر: NARINDER NANU/AFP/Getty Images

نیا تنازع کرناٹک میں سلیکون ویلی کے نام سے مشہور بنگلور کا ہے جہاں ماونٹ کارمل کالج کی انتظامیہ نے ایک سترہ سالہ سکھ لڑکی کو کلاس میں بیٹھنے کے لیے مخصوص مذہبی پگڑی'دستار' اتار نے کا حکم دیا۔

لڑکی کے والد گرچرن سنگھ کا کہنا ہے کہ اس واقعہ سے ان کا پورا خاندان صدمے میں ہے کیونکہ 'امرت دھاری' سکھ لڑکیوں کے لیے مخصوص دستار پہننا ان کے مذہب کا لازمی حصہ ہے۔

معاملہ کیا ہے؟

گرچرن سنگھ نے سکھوں کی مقامی تنظیم شری گرو سنگھ سبھا کو ایک خط لکھ کراس معاملے کی تفصیلات بتائی ہیں۔ انہوں نے بتایا،"میری بیٹی امیتیشور کور، کالج میں دوسرے سال کی طالبہ ہیں۔ وہ کالج کی اسٹوڈنٹس یونین کی صدر بھی ہیں۔ کالج کے حکام نے انہیں طلب کیا اور کہا کہ وہ اپنا دستار اتار دیں اور اس کے بعد ہی کالج آئیں۔ لیکن میری بیٹی نے نہایت ادب کے ساتھ ایسا کرنے سے انکار کردیا کیونکہ وہ ایک امرت دھاری سکھ ہے۔"

گرچرن سنگھ کا مزید کہنا تھا کہ کرناٹک حکومت کو اس معاملے کی وضاحت کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لڑکیوں کو پہلے ہی حجاب پہننے سے منع کیا جارہا ہے اوراب ان کی بیٹی سے بھی کہا جارہا ہے کہ وہ اپنا دستار اتار دے۔ کسی سکھ سے اس کا دستار اتارنے کے لیے کہنا نہ صرف ایک سکھ کی بلکہ پوری سکھ برادری کی سخت توہین ہے۔"

Proteste gegen Hidschab-Verbot an Schulen in Indien
تصویر: DIBYANGSHU SARKAR/AFP

کالج انتظامیہ کا کیا کہنا ہے؟

کالج انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ ہائی کورٹ کے حکم کی پابند ہے اور اس نے کسی کو دستار اتارنے پر کبھی نہ تو مجبور کیا اور نہ ہی کسی کو کلاس سے باہر بھیجا۔

کالج نے ایک بیان میں کہا،"سکھ لڑکیوں کا پگڑی(دستار) پہننا اب تک کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ 16فروری کو جب کالج کھلا تو ہم نے تمام طلبہ کو ہائی کورٹ کے حکم سے آگاہ کردیا۔ اس کے بعد سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔ منگل کے روز محکمہ تعلیم کے ایک اعلی افسر نے کالج کا معائنہ کیا۔ انہوں نے کچھ لڑکیوں کوحجاب پہنے ہوئے دیکھا اور انہیں دفتر میں طلب کرکے عدالت کے حکم کے بارے میں بتایا۔"

بیان میں مزید کہا گیا ہے،"ان لڑکیوں کا مطالبہ ہے کہ اگر کسی کو مذہبی علامت پہن کر کالج آنے کی اجازت نہیں ہے تو سکھ لڑکیوں کو بھی دستا ر پہن کر کلاس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ملنی چاہئے۔ اس لیے ہم نے سکھ لڑکی کے والد کو عدالت کے حکم کے بارے میں اطلاع دی اور ان سے اس کی تعمیل کرنے کے لیے کہا۔ "

کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب کے تنازع میں اپنے حالیہ عبوری حکم میں کلاس کے اندر زعفرانی رنگ کے شال، اسکارف، حجاب یا کوئی بھی مذہبی علامت پہننے پرروک لگا رکھی ہے۔

'ہم مسلم لڑکیوں کے ساتھ ہیں'

انفارمیشن ٹکنالوجی کے پیشے سے وابستہ گرچرن سنگھ کا کہنا ہے کہ دستار سکھ مذہب کا لازمی حصہ ہے۔ وہ کہتے ہیں،"ہم ان تمام مسلم لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ ہیں جو اپنے مذہبی عقیدے کی وجہ سے اپنا سر ڈھانپنا یا حجاب پہننا چاہتی ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا،"ہم انتظامیہ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ انہیں ایسا کرنے کی اجازت دیں کیونکہ ہمارے ملک میں اس پر عمل ہوتا رہا ہے اور اس سے کسی دوسرے کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔"

Indien Neu Delhi Farmer Proteste
تصویر: Seerat Chabba/DW

'دستار' کیا ہے؟

گوکہ سکھ مردوں کے لیے پگڑی پہننا سکھ مذہب  کا لازمی جز ہے تاہم سکھ خواتین بالعموم پگڑی نہیں پہنتیں۔ البتہ ایسی سکھ خواتین جو اپنی پوری زندگی سکھ مذہبی ہدایات کے مطابق گزارنے کا عہد کرتی ہیں یا بپتسمہ لیتی ہیں، انہیں امرت دھاری کہا جاتا ہے اور ان کے لیے پگڑی پہننا ضروری ہوتا ہے۔ سکھ خواتین جو پگڑی  پہنتی ہیں انہیں دستار یا دومالہ بھی کہتے ہیں۔

گوکہ تاریخی طور پر یقین سے یہ کہنا مشکل ہے کہ سکھ خواتین نے کب سے دستار پہننا شروع کیا تاہم سکھ ازم کی تاریخ پر نگاہ رکھنے والے بعض ماہرین کے مطابق دستار پہننے والی پہلی سکھ خاتون ماتا بھاگ کور تھیں،جو مائی بھاگو کے نام سے بھی معروف ہیں۔ وہ سکھوں کے آخری گرو گوبند سنگھ جی کی فوج میں شامل تھیں۔

بھارت: مسلم طالبات کے حجاب کا تنازعہ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں