1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: کووڈ کی وجہ سے نوجوانوں کی امیدیں چَکنا چُور

15 جولائی 2021

کورونا وبا کے سبب پیدا شدہ مالیاتی بحران نے نوجوان گریجویٹس کی امیدوں کی چکنا چور کر دیا ہے۔ ملازمت کے امکانات محدود ہونے کی وجہ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ جاب مارکیٹ کو دوبارہ پوری طرح بحال ہونے میں ابھی برسوں لگیں گے۔

https://p.dw.com/p/3wW1n
Indien Bildung Symbolbild UPSC
تصویر: Naveen Sharma/ZUMAPRESS/picture-alliance

گزشتہ برس مارچ میں بھارت میں کورونا وائرس کی وبا کے آغاز سے قبل سمرن ٹنڈن ایک بڑے انوسٹمنٹ بینکنگ کمپنی میں جوائن کرنے کی تیاریاں کر رہی تھیں۔ لیکن کمپنی نے ان کے آفر لیٹر کو اچانک منسوخ کر دیا اور اس کے بعد سے اب تک متعدد کمپنیاں ملازمت کے لیے سمرن کی درخواستوں کو مسترد کر چکی ہیں۔ حالانکہ انہوں نے نمایاں نمبروں کے ساتھ کامرس کی بیچلر ڈگری پاس کی ہے۔

سمرن ان لاکھوں نوجوان بھارتیوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے حال ہی میں اپنی گریجویشن مکمل کی ہے اور وبا سے بری طرح متاثر بھارتی معیشت میں اپنے لیے ایک مناسب نوکری تلاش کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔

بھارتی تھنک ٹینک سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی (سی ایم آئی ای) کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے جو شعبے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، جاب مارکیٹ ان میں سے ایک ہے اور اس کا بالخصوص نوجوانوں پر سب سے زیادہ اثر پڑا ہے۔

گھریلو آمدنی، اخراجات اور اثاثوں کا مسلسل سروے کرنے والے سی ایم آئی ای نے اپنے تازہ ترین اعدادوشمار میں بتایا ہے کہ بھارت میں بیس سے چوبیس برس کی عمر کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ بلند ہے۔ تقریباً اڑتیس فیصد نوجوان اس وقت بے روزگار ہیں۔

سمرن ٹنڈن نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے مایوسانہ لہجے میں کہا،”وبا کی وجہ سے میرا مستقبل غیر یقینی ہو گیا ہے۔ اب میں نے ملازمت تلاش کرنے کے بجائے تعلیم کو آگے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور چارٹرڈ اکاؤنٹنگ پروگرام میں اندراج کرا لیا ہے۔"

Indien Jugendliche beim Arbeiten
ان نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح بہت بلند ہے، جن کے پاس کوئی مخصوص مہارت یا اسکل نہیں ہےتصویر: Getty Images/AFP/M. Kiran

’تیزی سے غائب ہوتے‘ مواقع

 جرنلزم کے  ایک معروف کالج سے جرنلزم اور ماس میڈیا میں ڈگری کورس کرنے والی بائیس سالہ سواتی لوتھرا کافی پرجوش اور پرامید تھیں لیکن پچھلے ایک برس سے بھاگ دوڑ کے باوجود انہیں اب تک کوئی ملازمت نہیں مل سکی ہے کیونکہ میڈیا اداروں نے نہ صرف اپنے ورکرز کی تعداد کم کرنا شروع کر دی ہے بلکہ تنخواہیں بھی کم کر دی ہیں۔

سواتی لوتھرا نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”موجودہ حالات میں میڈیا انڈسٹری میں میرے لیے مواقع بڑی تیزی سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ وبا کی وجہ سے اداروں پر جو دباؤ پڑا ہے اسے دیکھتے ہوئے میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ آیا میڈیا میں ملازمت ملنا ممکن بھی ہے یا نہیں۔"

بھارت: ایک ماہ میں 75 لاکھ افراد روزگار سے محروم

بھارت: مہاجر مزدور پھر حیران و پریشان

سی ایم آئی ای کے مطابق شہروں میں بیچلر ڈگری رکھنے والی ہر چار میں سے ایک اور پوسٹ گریجویٹ ڈگری رکھنے والی ہر پانچ میں سے ایک خاتون بے روزگار ہے۔

سی ایم آئی ای کے منیجنگ ڈائریکٹر مہیش ویاس نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”سن 2020 کے لاک ڈاؤن نے نوجوانوں میں ناامیدی پیدا کر دی تھی۔ اچھی ملازمت حاصل کرنے کے ان کے مواقع ختم ہو گئے۔ سن 2021 میں آنے والی دوسری لہر نے تو جاب مارکیٹ کو مزید ابتر بنا دیا ہے۔"

مہیش ویاس کہتے ہیں کہ اگر 2022 میں تیسری لہر نہیں آتی ہے تب بھی نئے گریجویٹس کو ملازمت کی تلاش میں در در بھٹکنا پڑ سکتا ہے۔

بھارت میں ہر سال یونیورسٹیوں اور کالجوں سے گریجویشن کرنے والے تقریباً بیس ملین نوجوانوں میں سے پچاسی فیصد معمول کے ڈگری کورسز میں داخلہ لیتے ہیں جب کہ صرف پندرہ فیصد ہی انجینئرنگ، ٹیکنالوجی اور میڈیکل کالجوں میں داخلہ لے پاتے ہیں یا انہیں داخلہ مل پاتا ہے۔

انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمینٹ (آئی آئی ایم) جیسے ملک کے بہترین تعلیمی اداروں سے گریجویشن کرنے والے طلبہ، جنہیں عام حالات میں بڑی تنخواہوں کے ساتھ آسانی سے ملازمت مل جاتی تھی، آج کل ملازمت کی تلاش میں ہیں یا درخواست دینے سے قبل معیشت کے بحال ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔

Indien - muslimische Studenten
بھارت میں ہر سال گریجویشن کرنے والے تقریباً بیس ملین نوجوانوں میں سے پچاسی فیصد معمول کے ڈگری کورسز میں داخلہ لیتے ہیںتصویر: DW/S. Waheed

غیر یقینی مستقبل

کووڈ انیس کے بحران سے قبل بھی بھارت میں، بے روزگاری کی اونچی شرح کی وجہ سے، نوجوانوں کے لیے ملازمت کا حصول بہت زیادہ آسان نہیں تھا۔

گزشتہ برس بھارت کے جی ڈی پی میں اپریل سے جون کے درمیان منفی 23.9 فیصد کی گراوٹ آئی کیونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے اہم صنعتیں بند ہو گئیں اور لاکھوں افرادکی ملازمتیں ختم ہو گئیں۔ اپریل اور مئی میں آنے والی دوسری لہر نے صورت حال کو مزید ابتر کر دیا۔ متعدد ماہرین کی رائے میں ملازمتوں کے ختم ہونے اور معیشت کی خراب صورت حال میں بہتری آنے کی کوئی علامت دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ معیشت کی بحالی کا راستہ کافی طویل اور دشوار گزار دکھائی دے رہا ہے۔

انڈیا اسکل رپورٹ کے مطابق سن 2021 میں گریجویٹ ہونے والے نوجوانوں کو سن 2020 کے مقابلے ملازمت کے حصول میں کہیں زیادہ پریشانی ہو گی۔

ایک طرف کورونا، دوسری طرف بے روزگاری

کورونا وائرس : غریب ممالک میں غربت شدید تر

دہلی اسکل اینڈ انٹرپرینیور شپ یونیورسٹی کی وائس چانسلر نہاریکا ووہرا نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،”ہمیں اندازہ ہے کہ بھارتی نوجوانوں کے سامنے بے روزگاری ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن اگر ہم بے روزگاری کے اعدادوشمار پر باریکی سے نگاہ ڈالیں تو دیکھیں گے کہ ان نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح بہت بلند ہے، جن کے پاس کوئی مخصوص مہارت یا اسکل نہیں ہے۔"

مستقبل کی بے یقینی کو دیکھتے ہوئے حالانکہ بہت سے نوجوان گریجویٹس اس امید میں نئے پیشے یا مہارت سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ شاید آنے والے مہینوں میں حالات کچھ بہتر ہو جائیں لیکن بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ بھارتی معیشت کے پوری طرح بحال ہونے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔

 (مرلی کرشنن)/  ج ا