1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں چیف جسٹس گوگوئی کو اپنے خلاف جنسی الزامات کا سامنا

20 اپریل 2019

بھارت کے سینیئر ترین جج اور ملکی چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو جنسی نوعیت کے الزامات کا سامنا ہے۔ ان پر ملکی سپریم کورٹ کی ایک سابق ملازمہ کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام ہے، جسے انہوں نے ’ناقابل یقین‘ قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3H8DJ
Indien Justizsystem Pressekonferenz Richter am Obersten Gerichtshof
بھارتی سپریم کورٹ کے چار جج، جسٹس رنجن گوگوئی دائیں سے دوسرے، گزشتہ برس جنوری میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے، فائل فوٹوتصویر: Reuters

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے ہفتہ بیس اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق چیف جسٹس گوگوئی نے اپنے خلاف لگائے جانے والے ان الزامات کو آج سرے سے ’ناقابل یقین‘ قرار دیا۔ چیف جسٹس گوگوئی نے یہ بھی کہا کہ ان کے خلاف ملکی سپریم کورٹ کی ایک سابقہ جونیئر اہلکار اور اس وقت 35 سالہ خاتون نے جنسی نوعیت کے جو الزامات عائد کیے ہیں، ان کا مقصد انہیں بہت اہم مقدمات کی سماعت سے روکنا ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ کے 64 سالہ سربراہ رنجن گوگوئی نے ملک کی اس اعلیٰ ترین عدالت کا آج ہفتے کو ایک خصوصی اجلاس بھی بلا لیا تھا، جس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے لیے اپنے خلاف لگائے گئے ان الزامات کی تردید کرنا بھی دراصل ان کے مرتبے اور وقار سے بہت نیچے کی بات ہے۔

چیف جسٹس گوگوئی نے کہا کہ ان کے خلاف اس سابقہ خاتون اہلکار کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے ’ناقابل یقین‘ الزامات کی محرک ’بہت بڑی طاقتیں‘ ہیں۔ اس خاتون نے کل جمعہ انیس اپریل کو بھارتی سپریم کورٹ کے 25 میں سے 22 ججوں کو ایک خط لکھا تھا، جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے گزشتہ برس اکتوبر میں اپنی سرکاری رہائش گاہ میں قائم اپنے دفتر میں دو مرتبہ اس خاتون کے خلاف ناپسندیدہ جنسی پیش قدمی کی کوشش کی تھی۔

اس خاتون نے اپنے اس خط میں، جو ایک بیان حلفی کی صورت میں ہے اور جو نیوز ایجنسی اے ایف پی کے نامہ نگار نے خود بھی دیکھا ہے، لکھا ہے، ’’انہوں (جسٹس گوگوئی) نے میری کمر کے گرد ہاتھ ڈالے، میرے جسم کو اپنے بازوؤں سے کئی مرتبہ چھوا اور میرے جسم کو اپنے جسم سے دباتے رہے۔ اور وہ ان حرکتوں سے باز نہ آئے۔‘‘

اس خاتون نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ جب اس نے جسٹس رنجن گوگوئی کی طرف سے جنسی پیش قدمی کو مسترد کر دیا، تو اسے مبینہ طور پر نہ صرف ملازمت سے نکال دیا گیا بلکہ اس کے خاندان کو بھی ڈرایا دھمکایا گیا۔

اس خاتون نے بھارتی سپریم کورٹ سے یہ اپیل بھی کی ہے کہ اس کے بیان حلفی میں لکھی گئی باتوں کی چھان بین کے لیے ایک ’خصوصی تفتیشی کمیٹی‘ قائم کی جائے۔

اس بارے میں چیف جسٹس رنجن  گوگوئی نے آج کہا، ’’میں نے آج عدالت میں بیٹھ کر ایک غیر معمولی قدم اس لیے اٹھایا ہے کہ معاملات واقعی بہت آگے تک چلے گئے ہیں اور عدلیہ کو یوں قربانی کا بکرا نہیں بنایا جا سکتا۔‘‘ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو معمول کے مطابق اس سال نومبر میں اپنے عہدے سے ریٹائر ہونا ہے۔

بھارتی چیف جسٹس نے کہا، ’’ایسی قوتوں کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا، جو عدلیہ کو غیر مستحکم بنانا چاہتی ہیں۔ لیکن میں کسی خوف کے بغیر آئندہ بھی اپنے فرائض انجام دیتا رکھوں گا۔‘‘ چیف جسٹس گوگوئی نے ایک خصوصی سماعت کے دوران یہ بھی کہا کہ ان کے خلاف الزام عائد کرنے والی خاتون کا اپنا ایک مجرمانہ ریکارڈ بھی ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت ججوں کی مجموعی تعداد 25 ہوتی ہے اور ان سب کی تعیناتی ملکی صدر کی طرف سے کی جاتی ہے۔

م م / ع ت /  اے ایف پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں