بیجنگ جنوبی بحیرہ چین میں عدم استحکام کا ذمہ دار ہے، ہیگل
31 مئی 2014واشنگٹن انتظامیہ کا یہ مؤقف ہفتے کو امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ کی سالانہ تقریب سے خطاب میں بیان کیا۔اس اجلاس میں اعلیٰ سطحی عسکری مندوبین شریک تھے۔
اس موقع پر انہوں نے ایشیا میں امریکی اتحادیوں کے لیے اپنی حکومت کی سنجیدگی پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی تنازعے پر امن طریقے سے حل کیے جانے چاہییں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی وزیر دفاع نے کہا: ’’حالیہ چند مہینوں میں چین نے جنوبی بحیرہ چین پر اپنا حق جتانے کے لیے عدم استحکام پر مبنی اور یک طرفہ کارروائیاں کی ہیں۔‘‘
انہوں نے چین پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اسکاربورو شول تک فلپائن کی رسائی میں رکاوٹ پیدا کر رہا ہے جس سے سیکنڈ تھامس شول میں منیلا حکومت کی طویل المدتی موجودگی پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین ویت نام کے ساتھ متنازعہ سمندری حدود میں بھی پیش قدمی کر رہا ہے۔
چک ہیگل کا کہنا تھا کہ امریکا فریقین کے دعووں کے حوالے سے کسی کا طرف دار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ہم کسی بھی ملک کی جانب سے ایسے دعووں کو سچ ثابت کرنے کے لی دھمکی آمیز رویے، قبضے یا طاقت کے استعمال کے انتباہ کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا: ’’عالمی امن و امان کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہوئی تو امریکا اس سے آنکھیں نہیں چرائے گا۔‘‘
جنوبی بحیرہ چین کے تنازعے میں حال ہی میں مزید کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ چین تقریباﹰ اس سارے ہی خطے کی ملکیت کا دعوے دار ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ اس خطے پر تاریخی حق رکھتا ہے۔
چار جنوب مشرقی ایشیائی ممالک، برونائی، ملائیشیا، فلپائن اور ویت نام بھی اس سمندری علاقے کے بعض حصوں کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ چین کے دعووں کی مخالف میں فلپائن اور ویت نام بالخصوص آگے ہیں۔ تائیوان بھی اس خطے کا دعوے دار ہے۔
شنگریلا ڈائیلاگ کے اجلاس سے خطاب میں ہیگل نے جمہوریت کی طرف بڑھتے ہوئے ملکوں بالخصوص میانمار کے لیے معاونت کے عزم کا اظہار بھی کیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا جمہوری آزادیوں کو دبانے والے ملکوں کے ساتھ تعلقات کا جائزہ بھی لے گا۔
انہوں نے تھائی لینڈ کی عسکری حکومت پر بھی زور دیا ہے کہ اس نے حال ہی میں جن لوگوں کو قید کیا ہے، انہیں رہا کر دے اور آزادئ اظہار پر عائد پابندیاں بھی اٹھائے۔