1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیس لاکھ سے زائد مسلمان حج کے لیے مکہ میں

19 اگست 2018

دنیا بھر سے سعودی عرب کے شہر مکہ پہنچنے والے بیس لاکھ سے زائد مسلمان حج کے فریضے کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔

https://p.dw.com/p/33NfU
Saudi-Arabien Hadsch in Mekka
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA

حج کو دنیا کا سب سے بڑا سالانہ انسانی اجتماع قرار دیا جاتا ہے، جس کے لیے مسلمان لاکھوں کی تعداد میں مکے کا رخ کرتے ہیں۔ حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے اور تمام صاحبِ حیثیت مسلمانوں پر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔

اس مرتبہ زائرین کے لیے ’سمارٹ حج‘ کی سہولت

’مسلم اشتہار‘ کیا جرمن معاشرہ اسلام پسندی کی طرف جا رہا ہے؟

حج مسلمانوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ خود کو خدا کے قریب تر محسوس کر سکیں اور ایک ایسے وقت پر، جب دور حاضر کی مسلم دنیا شدت پسندی اور خونی تنازعات سمیت کئی طرح کے سنگین مسائل کا شکار ہے، دنیا بھر کے مسلمان رنگ و نسل سے بالا تر ہو کر ایک ہی جگہ پر آن ملیں۔

مصر سے تعلق رکھنے والے ایک حاجی عصام عیدین عفیفی نے، جو اس وقت حج کے لیے مکہ میں موجود ہیں، خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات چیت میں کہا، ’’ہم پر خدا کا کرم ہے کہ ہم اس وقت اس جگہ موجود ہیں۔ ہم دعا کر رہے ہیں کہ اللہ مشرق سے مغرب تک بسنے والی تمام مسلم اقوام کے حالات بہتر کرے۔ ہم یہ دعا بھی کر رہے ہیں کہ مسلم اقوام اپنی باہمی رنجشوں پر غالب آ جائیں۔‘‘

مکہ میں کعبہ مسلمانوں کے نزدیک دنیا کا مقدس ترین مقام ہے، جو بیت اللہ یا ’اللہ کا گھر‘ بھی کہلاتا ہے۔ یہ ٹھیک وہ مقام ہے، جس کی سمت دنیا بھر کے مسلمان روزانہ نمازوں کی ادائیگی کے وقت رخ کرتے ہیں۔

عازمین حج اپنے فریضے کا آغاز طواف کعبہ سے کرتے ہیں، جس کے بعد وہ صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان تیز تیز چلتے ہیں۔ حج کے مناسک میں پیغمبر اسلام کے علاوہ کئی دیگر پیغمبران سے منسوب متعدد اعمال بھی شامل ہیں۔

اس سال بھی حج کے موقع پر سلامتی کے انتظامات کو یقینی بنانے کے لیے سعودی عرب کی حکومت نے سخت ترین اقدامات کیے ہیں، جب کہ بھگدڑ جیسے کسی ناخوش گوار واقعے سے بچنے کے لیے بھی بہت سی احتیاطی تدابیر کی گئیں ہیں۔

سعودی وزارت داخلہ کے ترجمان میجر جنرل منصور الترکی نے ہفتے کے روز صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ اس برس حج کے لیے دنیا بھر سے سعودی عرب پہنچنے والے مسلمانوں کی تعداد بیس لاکھ سے زیادہ ہے۔

سعودی عرب نے صرف منیٰ کے مقام پر سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے بھی بھاری سرمایہ خرچ کیا ہے۔ اسی مقام پر حج کی تاریخ کا ایک بہت ہلاکت خیز واقعہ تین برس قبل پیش آیا تھا۔ ستمبر 2015ء میں منیٰ میں بھگدڑ کے نتیجے میں قریب ڈھائی ہزار حجاج موت کے منہ میں چلے گئے تھے جب کہ سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔

ع ت، م م (روئٹرز، اے ایف پی، ایسوسی ایٹڈ پریس)