1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹوں کی خواہش، ویتنام کو مسائل کا سامنا

11 جولائی 2011

نگوین تھی لان کو جب پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ اس کے ہاں بیٹی پیدا ہونے والی ہے تو اسے بڑی پریشانی ہوئی۔ تب اس کے شوہر کا رویہ اچانک بالکل بدل گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/11stQ
تصویر: DW

ویتنام کی اس خاتون شہری کا کہنا ہے کہ تب اس کا شوہر سرے سے مختلف انسان بن گیا تھا۔ نگوین کے بقول اس کا شوہر اسے مارتا تھا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ حاملہ تھی۔ ''اس نے مجھے کہہ دیا تھا کہ اسے کوئی ایسی بیوی نہیں چاہیے جو صرف بیٹیاں پیدا کر سکتی ہو۔ اس نے تو مجھے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ میں یا تو اپنا حمل ضائع کروا دوں یا اس کا گھر چھوڑ دوں۔‘‘

دنیا بھر میں آج پیر کو منائے جانے والے عالمی یوم آبادی کے موقع پر یہ تکلیف دہ صورت حال ویتنام کے حالات کی عکاسی کرتی ہے۔ وہاں کی خواتین کو ایک ایسے مسئلے کا سامنا ہے، جو مسلسل شدید ہوتا جا رہا ہے۔ ویتنام میں بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ لیکن لڑکیوں کی بجائے لڑکوں کی پیدائش کی یہی خواہش وہاں کی آبادی میں جنسی بنیادوں پر توازن کو بہت نقصان پہنچا رہی ہے۔

Karte Vietnam
تصویر: AP/ DW

یہ صورت حال ویتنام جیسے ملکوں میں سماجی استحکام کے لیے بھی بڑا خطرہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لیے کہ خاص طور پر ایشیائی معاشروں میں یہ مسئلہ سالہا سال سے پایا جاتا ہے، خاص طور پر چین اور بھارت میں بھی۔ یہی دونوں ملک پوری دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دو سب سے بڑے ملک بھی ہیں۔

ویتنام میں پہلے عام شہری اس وجہ سے کوئی فرق محسوس نہیں کرتے تھے کہ ان ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے یا بیٹی۔ لیکن گزشتہ چند برسوں سے وہاں زیادہ تر مردو‌ں کی سوچ بہت بدل گئی ہے۔ ہنوئے کے ایک کنڈر گارڈن کی استانی نگوین تھی کوین کہتی ہیں کہ انہوں نے پچھلے پانچ سال میں بڑی ڈرامائی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ہے۔

Kinderarbeit Flash-Galerie
بہت سے دیگر ملکوں میں بھی لڑکیوں کی پیدائش کو ناپسند کیا جاتا ہےتصویر: DW

ہنوئے کی رہنے والی اس استانی کا کہنا ہے، ’اس سال میری کلاس میں تیس سے زائد بچے ہیں۔ ان میں سے بیس لڑکے ہیں اور بارہ لڑکیاں۔ ان لڑکوں میں سے کئی ایک کو، جب وہ بڑے ہو جائیں گے، اپنے لیے کوئی بیوی ملے گی ہی نہیں۔‘

ویتنام میں خاندانی منصوبہ بندی اور آبادی سے متعلقہ محکمے کے ڈائریکٹر جنرل ڈوآنگ کوک ترونگ کا کہنا ہے کہ اس ملک کی آبادی میں مردوں اور خواتین کے تناسب میں فرق پریشان کن حد تک زیادہ ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ویتنام میں طبی عملے کے ارکان کو یہ اجازت نہیں کہ کسی حاملہ خاتون کو یہ بتایا جائے کہ اس کے ہاں بیٹا پیدا ہو گا یا بیٹی۔

ملکی حکومت کا کہنا ہے کہ ویتنام میں ان دنوں ہر ایک سو لڑکیوں کے مقابلے میں ایک سو گیارہ لڑکے پیدا ہو رہے ہیں۔ کچھ علاقوں میں تو یہ شرح ایک سو بیس لڑکے فی ایک سو لڑکیوں کی حد تک بھی پہنچ چکی ہے۔ جب تک یہ نومولود بچے جوان ہو کر شادی کے قابل ہوں گے، تب تک ویتنام میں مردوں اور خواتین کی تعداد میں فرق تین ملین سے بھی کہیں زیادہ ہو چکا ہو گا۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں